Wednesday, November 21, 2018

دماغ کے بارے میں حیرت انگیز حقائق

ایک بالغ انسانی دماغ کا وزن لگ بھگ تین پونڈ ہوتا ہے۔ مردوں کے دماغ کا اوسط وزن 2.9 پونڈ(1336 گرام) اور خواتین کا 2.6 پونڈ(1198 گرام) ہوتا ہے، مگر بڑے دماغ کا مطلب زیادہ ذہانت نہیں ، درحقیقت البرٹ آئن اسٹائن کے دماغ کا وزن 2.7 پونڈ ہی تھا پھر بھی وہ دنیا کے ذہین ترین انسانوں میں سے ایک تھا۔
آپ کا دماغ اتنی بجلی پیدا کرسکتا ہے جس سے 25 واٹ کا بلب روشن کیا جاسکتا ہے۔
بہت کم افراد کو "مشارکی" کا احساس ہوتا ہے ۔ یعنی ایک حس کا دوسری حس میں شامل ہوجانا۔دیکھنے کی حس سننے کی حس میں مشارکت کرلے۔ سونگھنے کی حس چھونے کی حس سے مشارکت کرلے۔ وغیرہ مثلا وہ رنگوں کو سن سکتے ہیں، الفاظ کو سونگھ سکتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا لیکن یہ احساس بہت کم لوگوں کو ہوتاہے۔ جس کو ہم چھٹی حس سے اکثر تعبیر کردیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن میں حواس خمسہ کا ہی ذکر ہے۔
یہ بات بالکل غلط ہے کہ انسان اپنے دماغ کا دس فی صد حصہ بھی استعمال نہیں کرپاتا۔ درحقیقت انسان اپنے دماغ کا دس فی صد سے بھی زیادہ حصہ استعمال کرپاتا ہے کیوں کہ دماغ کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں جو فعال نہ ہو۔
بیش تر دائیں ہاتھ سے کام کرنے والے افراد زبان کا تجزیہ اپنے دماغ کے بائیں حصے سے کرتے ہیں مگر لیفٹ ہینڈ افراد کئی بار دونوں حصوں کو استعمال کرپاتے ہیں۔
انسانی دماغ کی نشوونما پچیس سال کی عمر تک جاری رہتی ہے۔ اس کے بعد دماغ کا سائز بڑھنا رک جاتا ہے۔
دماغ وہ واحدعضو ہے جو خود کو خیالات سے آلودہ کرسکتا ہے۔
دماغ سوتے ہوئے خواب کیوں دیکھتے ہیں تاحال ایک سائنسی اسرار ہے۔ کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ ہمارے دماغ کی ورزش کا طریقہ ہے جو وہ نیند کے دوران اختیار کرتا ہے، دیگر کا دعویٰ ہے اس سے دماغ کو دن بھر کی یاداشتوں اور خیالات کو جذب کرنے میں مدد ملتی ہے۔
فیس بلائنڈ نیس نامی عارضہ(یعنی چہروں کی پہچان بھول جانا) ڈھائی فیصد آبادی کو اپنا ہدف بناتا ہے۔ا سٹینفورڈ یونیورسٹی کی 2012 کی ایک تحقیق کے دوران دماغ کے وہ حصے جو دماغ کو شناخت کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں ، اگر ان کو کوئی نقصان پہنچے تو اس سے لوگوں کے لیے چہرے یاد رکھنا ممکن نہیں ہوپاتا اور وہ لوگ انسانی چہروں کو یاد رہنے کے قابل اشیا میں دیکھتے ہیں۔
آپ خود کو گدگدی نہیں کرسکتے کیوں کہ حرام مغز آپ کو ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ حرام مغز، جو جسمانی حرکت کا ذمے دار ہوتا ہے سنسنی کے احساس کی پیش گوئی اور ردعمل کو روکتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص خود کو گدگدی نہیں کرسکتا حالاں کہ یہ عادت زمانہ ماضی میں سماجی تعلق کی مضبوطی کی ایک قسم سمجھی جاتی تھی۔
کچھ معاشروں میں جانوروں کا دماغ لذیذ غذا سمجھا جاتا ہے۔ جیسے ہم پاکستان کے لوگ بکروں اور گائے کے مغز شوق سے کھاتے ہیں۔ ہا ں یاد رہے دل کے مریضوں کے لئے مغز اور پائے نقصان دہ ہیں۔کیونکہ ان میں کولیسٹرول کی مقدار کافی ہوتی ہے۔
آپ کا دماغ پورے جسم کو ملنے والی آکسیجن کا کم از کم 20 فی صد حصہ استعمال کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ کو آپ کے پٹھوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔
آپ کے دماغ میں درد کو محسوس کرنے والے ریسیپٹر یا حسی عضو نہیں ہوتے تو درحقیقت آپ کو دماغ کو ’درد‘ محسوس ہی نہیں ہوتا۔ اگرچہ دماغ ہماری ریڑھ کی ہڈی کی مدد سے درد کو شناخت اور پراسیس کرتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دماغی خلیات اور حصوں کو درد محسوس ہی نہیں ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دماغی سرجری کسی فرد کی بیداری کے دوران بھی ہوجاتی ہے۔
جو لوگ اعضا ء سے محروم ہوجاتے ہیں وہ شیشے کو بطور تھراپی استعمال کر کے خیالی درد پر قابو پاسکتے ہیں۔ایسا خیالی درد نوے فیصد اعضا سے محروم ہوجانے والے افراد کو محسوس ہوتا ہے تاہم شیشے کی تھراپی دماغ کو معمول کے سنسری پیٹرن میں واپس لوٹانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
 مزید اچھی پوسٹیں پڑھنے کے لیے وزٹ کریں ہماری دوسری ویب سائٹ 
👇
Http://Shanzargar.blogspot.com

No comments:

Post a Comment