Monday, November 12, 2018

سسی پنوں آخری قسط نمبر -4


*سسی پنوں*

 *الماس ایم اے*

قسط نمبر :- 4

_آخری قسط_

"پنوں فوراً مان گیا۔ وہ کہتا ہے کہ میں سسی کے لیے جان تک قربان کر سکتا ہوں۔ ”
دلاری نے اس طرف سے تو سسی کو مطمئن کر دیا۔
اب دلاری نے محمد چودھری کو اس شادی کے لیے رضامند کرنا تھا۔ یہ کام بہت مشکل تھا مگر دلاری نے ہمت نہ ہاری۔ وہ واقعی سسی کی مخلص سہیلی تھی۔ دو ہی دن بعد وہ چودھری کے پاس پہنچ گئی۔ اس نے پہلے ادھر ادھر کی باتیں کیں پھر مطلب کی بات کا آغاز کیا۔
اس نے کہا:
"چودھری چاچا تم جانتے ہو کہ سسی میری سب سے زیادہ پیاری سکھی سہیلی ہے ؟”
"ہاں ہاں ! اس میں کیا شک ہے۔ سسی بھی تیری ہر وقت تعریف کرتی رہتی ہے۔ ”
چودھری نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"تو اگر میں کوئی بات سسی کے لیے کہوں گی تو وہ اس کے بھلے ہی کے لیے ہو گی۔ ”
دلاری نے چودھری کو پکا کرنا شروع کیا۔
"اس میں شک کی کیا بات ہے تو جو سوچے گی اس کے بھلے ہی کے لیے سوچے گی۔ ”
چودھری نے تصدیق کر دی
دلاری جی کڑا کر کے بولی۔
"تو چاچا میں کہتی ہوں کہ تو سسی کی شادی کر دے۔ ” یہ کہتے ہوئے دلاری کا دل زور زور سے اچھل رہا تھا۔
محمد چودھری نے قدرے حیران نظروں سے دلاری کو دیکھا۔
"کروں گا شادی” چودھری بولا۔ "ابھی جلدی بھی کیا ہے کوئی اچھا لڑکا تو ہاتھ لگے نظر آئے عمر بھر تو سسی کو بٹھائے نہیں رکھنا۔ ”
دلاری نے صرف اپنے مطلب کی بات سنی فوراً بولی۔
میں نے لڑکا دیکھ لیا ہے سسی کے لیے۔
"کیا کہا تو نے ؟” محمد چودھری چونکے۔ "کہاں دیکھا ہے لڑکا تو نے، کیا کرتا ہے ؟” لڑکے کو سب جانتے ہیں ” دلاری نے زور دے کے کہا”مشک وغیرہ کا سوداگر ہے کارواں سرائے میں ٹھہرا ہوا ہے آج کل بڑا مالدار ہے وہ، سسی سونے میں پیلی ہو جائے گی”
"وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ پنوں سوداگر۔ ” محمد چودھری نے سوچتے ہوئے کہا:”وہ تو بڑا امیر آدمی ہے ہم غریبوں میں کیوں کرنے لگا وہ شادی؟”
"چودھری چاچا تم ہاں تو کرو میں راضی کر لوں گی اسے۔ "دلاری نے بڑے یقین سے کہا۔
محمد چودھری سوچ میں پڑ گیا۔ دلاری اکتاتے ہوئے بولی۔
"چاچا کس سوچ میں پڑ گئے ؟ اس سے اچھا رشتہ نہیں ملے گا سسی کے لیے۔ ”
"یہ تو ٹھیک ہے مگر کچھ ذات برادری پوچھی ہے اس کی میں دھوبی ہوں اور اپنی ذات برادری میں سسی بیٹی کا بیاہ کروں گا۔ ” محمد چودھری نے بھی بڑے استقلال سے جواب دیا۔
"چودھری چاچا کیا میں نہیں جانتی "دلاری نے جواب میں کہا۔ "پنوں بھی اپنی برادری کا ہے کپڑے کی رنگائی دھلائی کا کام کرتا تھا اب
"اللہ نے پیسہ دیا تو مشک وغیرہ کی سوداگری کرنے لگا۔ ”
"دلاری تو ٹھیک کہہ رہی ہے کہ مجھے خوش کرنے کو کہہ دیا ہے۔ ” محمد چودھری نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔
"نہیں چاچا میں ٹھیک کہہ رہی ہوں تم اپنا اطمینان کر سکتے ہو۔ ” دلاری نے بے دھڑک کہہ دیا۔
"چلو فیصلہ ہو گیا اگر پنوں اپنی برادری کا ہے تو سسی کی شادی اس سے کر دوں گا۔ یہ میرا وعدہ رہا مگر میں پنوں کو آزماؤں گا” ضرور محمد چودھری نے فیصلہ کر دیا۔
"تم اچھی طرح اطمینان کر لو” دلاری نے بڑے حوصلے سے کہا:
چودھری کے قریب ہی چند میلے کپڑے رکھے تھے۔ اس نے کپڑے سمیٹ کے دلاری کو دیئے اور کہا: یہ چار کپڑے گلو بنئے کے ہیں۔ پنوں سے کہو انہیں دھو کے لے آئے بس اطمینان ہو جائے گا۔
دلاری نے کپڑے اٹھائے پنوں کے پاس پہنچی۔
"پنوں اب بات تیرے اوپر آ گئی ہے۔ ” دلاری نے پاس بیٹھتے ہوئے کہا:
"چودھری تیرا امتحان لے رہا ہے۔ اور دلاری نے کپڑوں کی پوٹلی پنوں کی طرف بڑھا دی۔ "یہ اس کے میلے کپڑے ہیں۔ یہ دھو کے لے آؤ تو بس سمجھوں کہ سسی تمہاری ہو گئی۔ ”
"سچ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا سچ کہہ رہی ہو؟” پنوں پھولے نہ سما رہا تھا۔
پنوں کپڑے لے کر خوشی خوشی گھاٹ پر پہنچا۔ اور پوٹلی کھول کے کپڑے دھونے کے لیے نکالے اور دھونے بیٹھا۔ اس نے آج تک رو مال بھی نہ دھویا تھا پھر کپڑے اس سے کیا دھلتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کپڑے دھوتے ہوئے اس کے ہاتھ چھل گئے اور کپڑے بھی جگہ جگہ سے مسک گئے پنوں بہت پریشان ہوا اور سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔
جب دوپہر ہوئی اور پنوں کپڑے دھو کر دلاری کے پاس نہیں پہنچا تو اسے فکر ہوئی۔ وہ فوراً گھاٹ پر پہنچی اور دیکھا کہ پنوں سر جھکائے غمگین بیٹھا ہے۔
دلاری کو دیکھ کر پنوں کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ اس نے دلاری کے پوچھنے سے پہلے ہی بتایا:
"دلاری میں بڑا بدبخت ہوں سسی کے لیے میں نے گھر بار چھوڑا۔ باپ بھائیوں سے الگ ہوا۔ سوداگر کا بھیس بدل کر یہاں تک پہنچا۔ تم نے بھی کوشش کر کے سسی کا حصول میرے لیے آسان بنا دیا مگر سسی شاید میری تقدیر میں نہیں ہے۔ کپڑے دھونے تو الگ رہے میرے ہاتھ بھی چھل گئے اور کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے ہیں اب کیا ہو گا دلاری؟”
دلاری نے پنوں کو تسلی دی۔ "گھبراؤ نہیں پنوں جب تم کیچ مکران سے یہاں تک پہنچ گئے تو پھر سسی اب تم سے زیادہ دور نہیں۔ میں نے اپنی سہیلی کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ میں اسے پورا کر کے رہوں گی اب میں جو کہوں تم اس پر عمل کرو۔ اللہ نے چاہا تو مشکل آسان ہو جائے گی۔ ”
پنوں کو کچھ اطمینان ہوا۔ "کہو دلاری مجھے کیا کرنا ہے۔ تمہارا احسان میں زندگی بھی نہیں بھول سکتا۔ ”
"تم یوں کرو” دلاری نے پنوں کو سمجھانا شروع کیا۔ "یہ چار کپڑے ہیں ان کی پوٹلی باندھو پھر پوٹلی کے اوپر ایک کپڑے میں گرہ لگا کر اس میں چار اشرفیاں باندھ دو اس کے بعد تم سیدھے گلو بنئے کی دکان پر جاؤ اور اس سے خوشامد کر کے کہو کہ تم نئے کام پر لگے ہو۔ اس لیے کپڑے دھونے میں پھٹ گئے ہیں کپڑوں کی قیمت یعنی اشرفیاں تم نے کپڑے میں باندھ دی ہیں۔ یہ تم لے لو اور اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا کہ تمہیں کپڑے کی دھلائی میں ملے ہیں بس سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ”
پنوں کی سمجھ میں بات آ گئی۔ اس نے کپڑے سمینٹے چار اشرفیاں باندھ کر گرہ لگائی اور گلو بنئے کی دکان پر پہنچا۔ وہاں پنوں نے اشرفیاں کھول کے بنئے کے سامنے رکھ دیں۔ اس نے ایسا ہی کیا اور اشرفیاں دیکھ کر بنئے کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
پنوں نے کہا:
چاچا میں نے کپڑے دھونے کا کام نیا نیا شروع کیا ہے۔ کپڑے دھونے میں پھٹ گئے ہیں۔ یہ چار اشرفیاں تمہارے کپڑوں کی قیمت ہے تم یہ اشرفیاں لے لو اور اگر کوئی کپڑوں کے بارے میں پوچھے تو کہہ دینا کہ پنوں کپڑے دھو کر تمہیں دے گیا ہے۔
گلو تو اشرفیاں دیکھ کر پھول گیا تھا۔ اس نے اشرفیاں اٹھا کر جلدی سے جیب میں رکھیں اور بولا:
"فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پوچھنے والے کو میں جواب دے دوں گا۔ ”
پنوں نے دلاری کے پاس جا کر تمام حال بیان کر دیا۔ دلاری اس وقت محمد چودھری کے پاس گئی۔
"چاچا اب اپنا وعدہ پورا کرو۔ پنوں نے کپڑے دھو دیئے۔ ”
"کپڑے کہاں ہیں ؟” محمد چودھری نے ہنس کر پوچھا۔
"کپڑے تو پنوں، گلو کی دکان پر پہنچا بھی آیا” دلاری نے بڑے اعتماد سے کہا۔
"اچھا اچھا! یہ تو بہت اچھا ہوا۔ ”
محمد چودھری خوش ہو گیا۔
اس شام محمد چودھری نے دھوبیوں کی برادری جمع کی اور سسی اور پنوں کا نکاح پڑھا دیا۔ دلاری نے پنوں کے لیے ایک مکان کا بندوبست پہلے ہی کر دیا تھا۔ پنوں اپنی دلہن لے کر وہاں پہنچ گیا اس طرح سسی اور پنوں کی امیدیں بر آئیں اور وہ ہنی مون سے سرفراز ہوئے۔
شہزادہ پنوں کو کچ مکران سے نکلے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا تھا۔ شاہ مکران نے پہلے یہی سمجھا کہ شہزادہ دوست احباب کے ساتھ کہیں سیر سپاٹے کو نکل گیا ہے مگر جب پنوں کو غائب ہوئے کئی ہفتے ہو گئے تو شاہ کو فکر ہوئی اور اس نے پنوں کی تلاش میں ہر طرف آدمی دوڑائے۔
ادھر تو پنوں کا باپ کچ مکران پریشان تھا۔ اور ادھر پنوں کے ساتھ آنے والے کیچ مکران کے آدمی اور یار دوست بھمبور میں رہتے رہتے پریشان ہو گئے تھے۔ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ پنوں سسی کے عشق میں گرفتار ہے اور اس کی تلاش ہی میں بھمبور آیا ہے۔ شہزادے کو پریشان دیکھ کے ہی وہ لوگ شہزادے کچ مکران سے بھمبور آئے تھے۔
مگر اب صورت حال تبدیل ہو گئی تھی۔ شہزادے کا بھمبور آنے کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔ اسے سسی مل گئی تھی اور اب وہ شہزادے کی بیاہتا بیوی تھی پھر شہزادے کا بھمبور میں قیام کرنے کا کیا مقصد تھا؟ اسے خود ہی سسی کو ساتھ لے کر کچ مکران جانا چاہیے تھا۔ مگر شہزادے نے تو جیسے دنیا ہی چھوڑ دی تھی۔ وہ رات دن سسی کے پاس بیٹھا رہتا اور میاں بیوی دنیا سے بے پرواہ ہو کر وصل کے مزے لوٹتے تھے۔
آخر جب پنوں کے آدمی بہت پریشان ہوئے انہوں نے پنوں سے ملنے کی کوشش کی تاکہ اسے سمجھا بجھا کر کیچ مکران واپس لے جانے کی کوشش کریں۔ مگر کئی روز تک شہزادے پنوں نے انہیں کوئی خبر تک نہ بھیجی۔ وہ شہزادے سے ملنے کی کوشش میں لگے رہے۔ آخر ایک دن جب پنوں اور سسی دلاری کی منگنی میں شرکت کے لیے جا رہے تھے تو پنوں کے ساتھیوں نے اسے گھیر لیا۔
ایک ساتھی نے شہزادے سے آخر تلخ لہجے میں کہہ دیا:
"شہزادے یہ کیا بات ہوئی۔ آپ نے ہم لوگوں سے ملنا ہی چھوڑ دیا۔ ”
شہزادے کے پاس کوئی جواب نہ تھا اس لیے وہ صرف کھسیانہ ہو کر رہ گیا۔
دوسرے ساتھی نے ذرا سختی سے کہا:
"شہزادے بہادر! آپ کی مراد پوری ہوئی۔ آپ کا گھر بس گیا اب دلہن لے کر کیچ مکران واپس چلئے۔ ”
شہزادے پر تو سسی کے عشق کا نشہ چڑھا ہوا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے اس جائز مطالبہ پر چراغ پا ہوا اور انہیں جھڑک دیا۔
"مجھے اب کچ مکران نہیں جانا ہے۔ میں بھمبور میں مستقل قیام کروں گا۔ تم لوگوں کو واپس جانا ہے تو چلے جاؤ اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ ”
پنوں کے ساتھ اس کا یہ سخت جواب سن کے دنگ رہ گئے۔ انہوں نے سمجھ لیا پنوں سے بات کرنا بیکار ہے۔ پھر تمام ساتھی سر جوڑ کے بیٹھے اور یہ طے پایا کہ دو آدمی فوراً کچ مکران جائیں اور بادشاہ کو تمام حالات سے آگاہ کریں۔
پس شاہ کچ مکران کو اس کی اطلاع دی گئی۔ بادشاہ چاہتا تو فوج بھیج کر پنوں کو اور تمام دھوبیوں کو پکڑ بلواتا مگر شاہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے تینوں بیٹوں کو بھمبور اس تاکید کے ساتھ روانہ کیا وہ پنوں کو بغیر کوئی سختی کئے اس کے پاس واپس لے آئیں۔
پنوں کے تینوں بڑے بھائی جن کے نام چزے، ہوتی اور فوتی تھے۔ وہ کچ مکران سے بھمبور پہنچے۔ شہزادے پنوں کو بھائیوں کی آمد کی اطلاع ہوئی تو وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے بھائیوں سے سسی کو ملوایا۔ شہزادوں نے بھی اس پر مسرت کا اظہار کیا لیکن جب انہوں نے پنوں کو واپس چلنے کے لیے کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ 
شہزادے خالی ہاتھ واپس نہیں جا سکتے تھے۔ چنانچہ وہ بھی بھمبور میں ٹھہر گئے اور کسی موقع کا انتظار کرنے لگے۔ روایت کے مطابق پنوں نے انہیں یہ موقع خود فراہم کیا۔ بھائیوں کے آنے کی خوشی میں پنوں نے ایک ناچ رنگ کی زبردست محفل برپا کی۔ ناچ کے ساتھ شراب و کباب کا بھی اہتمام کیا گیا۔
یہ محفل اندر باہر یعنی زنان خانے اور مردانے دونوں جگہ برپا ہوئی سب رنگین محفل کی دلبستگی اور رنگینی میں مست تھے۔ زنانی محفل نصف شب تک جاری رہی پھر وہیں تمام سہیلیاں کسی نہ کسی طور فرش ہی پر لیٹ کے سو گئیں۔
مردانی محفل زیادہ پر جوش تھی۔ پنوں کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ اس نے بھمبور کی مشہور گانے والی کا انتظام کیا تھا۔ وہ بھی خوب لہک لہک کے گا رہی تھی پھر جب رنگ پر محفل آئی مغنیہ نے ایک سندھی دوہا گانا شروع کیا:۔
ندیا سوکھ جانے کے بعد پنچھی اڑ جائیں۔
تو کوئی مضائقہ نہیں
لیکن یہ لڑکے پنچھی کو تالیاں بجا بجا کر
کیوں اڑاتے ہیں
پنوں یہ دوہاسن کے بے چین ہو گیا۔ یہ دوہا بالکل اس کے حسب حال تھا۔ اس کے دل سے ایک ہوک سی اٹھی اور خیال گزرا کہ وہ بھی ایک پنچھی ہے جسے لڑکے تالیاں بجا کر اڑا رہے ہیں۔ اسی کرب کے عالم میں شراب کے کئی دور چلے اور جام پر جام چڑھائے گئے۔ اور اس قدر نشہ ہو گیا کہ اسے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ ایک بیان یہ بھی ہے کہ پنوں کے بھائیوں نے شراب پلا کر مد ہوش کر دیا اور جب وہ بے سدھ ہو گیا تو اسے اونٹ پر لاد کر کیچ مکران کی طرف واپس ہوئے۔
سسی جب صبح کو بیدار ہوئی تو اس نے پہلے پنوں کے بارے میں پوچھا۔ سب نے بتایا کہ مردانہ محفل دیر تک جاری رہی تھی۔ پنوں اپنے بھائیوں کے ساتھ باہر ہی سوگیا تھا مگر سسی کو معلوم ہو گیا کہ اس کے بھائی اسے مدہوش کر کے اور اونٹ پر لاد کے لے اڑے ہیں۔
یہ بات سن کے سسی تڑپ اٹھی۔ اس نے بال نوچنا اور کپڑے پھاڑنا شروع کر دیئے۔ محمد چودھری بیٹی کا یہ حال دیکھ کر نیم مردہ ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے سسی کی چیخ و پکار کسی طرح کم نہ ہوئی تھی۔ آخر دن کسی نہ کسی طرح کٹا۔ جب رات ہوئی تو سسی چپکے سے گھر سے نکلی اور اس نے کیچ مکران کا رخ کیا اس وقت اس کی زبان پر یہ اشعار تھے :
میرے سجن مہار تھام لو اونٹ کو روکو
اس کنیز کی چوکھٹ کو اپنے قدموں سے نواز دو
اے دوست میں نے تمہارے بغیر ہر پل میں
قیامت کا سماں دیکھا
اے کاش اس کی اونٹوں کو دھوپ نہ لگے
اے کاش اسے راستے میں پیاس نہ لگے
سسی تمام رات اسی طرح سرگرداں صحرا میں چلتی رہی۔ وہ ریت پر چل رہی تھی۔ اوپر آسمان پر ستارے چمک رہے تھے، سسی ستاروں کو آواز دے کر اپنے محبوب کا پتہ پوچھتی تھی وہ واسطے دیتی۔ دہائیاں کرتی ایک طرف بڑھتی جا رہی تھی ایک نامعلوم منزل کی طرف نہ بھوک نہ پیاس، زبان پر صرف پنوں پنوں کی صدا تھی۔
رات گزری۔ دن چڑھا مگر سسی کا سفر جاری تھا۔ وہ بے نشان اور بے منزل صحرا میں بھٹک رہی تھی۔ اس کے گرد آلود پیر زخمی ہو گئے۔ بالوں میں ریت بھر گئی تھی۔ پیاس سے گلے میں کانٹے پڑ گئے تھے۔ مگر اسے ہوش ہی کب تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ گوشت پوست کی نہیں بلکہ ایک واہمہ ہے۔ ایک ہیولہ ہے۔ سسی کا دن بھی اسی سفر اور آہ و زاری میں گزر گیا۔
پھر شام کو دھند لکے میں سسی کو صحرا میں ایک جھونپڑا نظر آیا۔ اس نے جھونپڑے پر دستک دی۔ جھوپڑے سے ایک پنوار نکلا۔ سسی کے پیر اور چہرہ اگرچہ گرد آلود تھا مگر اس کا حسن اس میں بھی جگمگا رہا تھا۔
سسی نے اس سے سوال کیا:
"تم نے میرا پنوں دیکھا؟”
سسی کو دیکھ کر پنوار کی نیت بدل گئی۔
اس نے کہا "تم کس پنوں کو پوچھتی ہو؟ یہاں تو ہزاروں پنوں ہیں۔ ”
یہ کہہ کر پنوار نے سسی کا بازو پکڑ لیا۔ سسی کو اس دیوانگی میں بھی اپنی عصمت کا خیال تھا۔ اس نے مدافعت کی کمزور عورت کا کیا بس چلتا۔
اس وقت سسی نے دھرتی ماتا سے مدد مانگی۔
اے دھرتی ماں مجھے اپنے دامن میں چھپالے۔
پھر اس وطن کی سرزمین کا سینہ شق ہو گیا۔ سسی اس میں سما گئی۔ زمین سسی کو سینے میں چھپا کر پھر برابر ہو گئی۔ اسی طرح جیسے پہلے تھی۔ صرف سسی کا دوپٹہ(چادر کا پلو) نشان کے طور پر باہر رہ گیا۔
سسی نے عشق کیا وہ وصل میں بھی کامیاب ہوئی مگر ظالم دنیا والوں نے اسے چین نہ لینے دیا۔
ادھر جب پنوں کو ہوش آیا تو اس نے خود کو بھائیوں کے ساتھ اونٹ پر سوار پایا۔
اس نے پوچھا:
"اے بھائیو!مجھ پر کیا گزری تم مجھے کہاں لئیے جا رہے ہو؟”
بھائیوں نے اسے اس کے اغواء کا پورا قصہ سنا دیا۔ پنوں نے "ہائے سسی” کا ایک نعرہ مارا اور اونٹ سے کود کر ایک طرف بھاگنے لگا۔ وہ صحرا میں بھاگ رہا تھا اور "سسی سسی” کے نعرے لگا رہا تھا۔ پنوں تمام دن یونہی صحرا میں بھاگتا رہا پھر جب شام ہوئی تو اسے ایک طرف آگ جلتی نظر آئی۔ پنوں ادھر گیا ایک جھونپڑے کے سامنے اسے ایک پنوار نظر آیا۔
"تم نے میری سسی کو دیکھا؟” پنوں نے اسے جھنجھوڑ کے پوچھا۔
پنوار رونے لگا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے اس جگہ لے گیا جہاں سسی زمین میں سما گئی تھی۔
پھر اس نے سسی پر جو گزری تھی وہ کہہ سنائی اور پنوں کو سسی کا زمین سے باہر نکلا ہوا پلو دکھایا۔
پنوں چیخ مار کر پلو پر گرا اور آواز دی:
سسی تو کہاں ہے ؟”
اس وقت زمین سے آواز آئی:
"پنوں میں یہاں ہوں۔ ”
پھر زمین کا سینہ دوبارہ شق ہوا اور پنوں بھی اس میں سما گیا۔ وہ اپنی سسی سے مل گیا۔ اب ان دونوں کو کوئی جدا نہ کر سکتا تھا ۔
ختم شد •

No comments:

Post a Comment