Saturday, November 10, 2018

پیر کامل قسط نمبر -8

پیر کامل
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر -8
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈونٹ ٹیل می ، امامہ ۔ کیا تم واقعی انگیجڈ ہو
 زینت کو جویریہ کے انکشاف پر جسیے کرنٹ لگا ۔ امامہ نے ملامتی نظروں سے جویریہ کو دیکھا جو پہلے ہی معذرت خواہانہ انداز میں اسے دیکھ رہی تھی ۔
 اسے نہیں ، مجھے دیکھ کر بتاؤ کیا تم واقعی انگیجڈ ہو ؟ زینب نے اس بار اسے کچھ جھڑکتے ہوئے کہا
ہاں مگر یہ اس قدر غیر معمولی اور حیرت انگیز واقعہ تو نہیں کہ تم اس پر اس طرح ری ایکٹ کرو
 امامہ نے بڑی رسانیت سے کہا ۔ وہ سب لائبریری میں بیٹھی ہوئی تھیں اور اپنی طرف سے حتی المقدور سرگوشیوں میں باتیں کررہی تھیں
مگر تمہیں ہمیں بتانا تو چاہیے تھا، آخر راز میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اس بار رابعہ نے کہا
 راز میں نے تو نہیں رکھا ، بس یہ کوئی اتنا اہم واقعہ نہیں تھا کہ تمہیں بتاتی اور پھر تم لوگوں سے میری دوستی تو اب ہوئی ہے جبکہ اس منگنی کو کئی سال گزر چکے ہیں۔ امامہ نے وضاحت کرنے ہوئے کہا ۔ کئی سال سے تمہاری کیا مراد ہے ؟ میرا مطلب ہے دو تین سال
 پھر بھی امامہ بتانا تو چاہیے تھا تمہیں ۔۔۔۔۔ زینب کا اعتراض ابھی بھی اپنی جگہ قائم تھا ۔ امامہ نے مسکراتے ہوئے زینب کو دیکھا
اب کروں گی تو اور کسی کو بتاؤں یا نہ بتاؤں تمہیں ضرور بتاؤں گی
ویری فنی ۔ زینب نے اسے گھورتے ہوئے کہا
 اور کچھ نہیں تو تم ہمیں کوئی تصویر وغیرہ ہی لاکر دکھا دو موصوف کی ۔۔۔۔ ہے کون؟ ۔۔۔۔۔۔ نام کیا ہے ؟ کیا کرتا ہے ؟
رابعہ نے ہمیشہ کی طرح ایک ہی سانس میں سوال در سوال کر ڈالے ۔
 فرسٹ کزن ہے ۔۔۔۔۔ اسجد نام ہے ۔ امامہ نے رک رک کر کچھ ہوچتے ہوئے کہا ۔ ایم بی اے کیا اس نے اور بزنس کرتا ہے ۔
شکل و صورت کیسی ہے ۔ اس بار زینب نے پوچھا ۔ امامہ نے غور سے اسکے چہرے کو دیکھا
ٹھیک ہے
 ٹھیک ہے ؟ میں تم سے پوچھ رہی ہوں ۔۔۔ لمبا ہے ؟ ڈارک ہے ؟ ہینڈسم ہے ؟ اس بار امامہ مسکراتے ہوئے کچھ کہے بغیرزینب کو دیکھتی رہی ۔
 امامہ نے اپنی پسند سے منگنی کی ہے ۔۔۔۔۔ وہ اچھا خاصا گڈلکنگ ہے ۔۔۔ جویریہ نے اس بار امامہ کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہا ۔
 ہاں ہمیں اندازہ کرلینا چاہیے تھا ۔ آخر وہ امامہ کا فرسٹ کزن ہے ۔۔۔۔ اب امامہ تمہارا اگلا کام یہ ہے کہ تم ہمیں اس کی تصویر لا کر دکھاؤ ۔ زینب نے کہا
 نہیں ، اس سے پہلے کا ضروری کام یہ ہے کہ تم ہمیں کچھ کھلانے پلانے لے چلو ۔ رابعہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ۔
 فی الحال تو یہاں سے چلیں ، ہاسٹل جانا ہے مجھے ۔۔۔۔۔ امامہ یک دم اٹھ کر کھڑی ہوگئی تو وہ بھی اٹھ گئیں
ویسے جویریہ تم نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی ، ساتھ چلتے ہوئے زینب نے جویریہ سے پوچھا۔
 بھئی امامہ نہیں چاہتی تھی اس لیے میں نے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی ۔ جویریہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ۔ امامہ نے مڑکر ایک بار پھر جویریہ کو گھورا ، اس کی نظروں میں تنبیہ تھی
 امامہ کیوں نہیں چاہتی تھی ۔ میری منگنی ہوئی ہوتی تو میں تو شور مچاتی ہر جگہ ، وہ بھی اس صورت میں جب یہ میری اپنی مرضی سے ہوتی ۔ زینب نے بلند آواز میں کہا ۔
امامہ نے اس بار کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا بیٹا آبادی کے اس 2.5 فیصد حصے میں شامل ہے جو 1500 سے زیادہ کا آئی کیو لیول رکھتے ہیں۔ اس آئی کیو لیول کے ساتھ وہ جو کچھ کررہا ہے وہ غیر معمولی سہی لیکن غیر متوقع نہیں ہے ۔
 اس غیر ملکی اسکول میں سالار کو جاتے ہوئے ابھی صرف ایک ہفتہ ہوا تھا جب سکندر اور اسکی بیوی کو وہاں بلوایا گیا تھا ۔ اسکول کے سائیکالوجسٹ نے انہیں سالار کے مختلف آئی کیو ٹیسٹ کے بارے میں بتایا تھا ، جس میں اس کی پرفارمنس نے اس کے ٹیچرز اور سائکالوجسٹ کو حیران کردیا تھا ۔ اس اسکول میں وہ 150 آئی کیو لیول والا پہلا اور واحد بچہ تھا اور چند ہی دنوں میں وہ وہاں سب کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا ۔
 سکندر اور انکی بیوی سے ملاقات کے دوران سائیکالوجسٹ کو اس کے بچپن کے بارے میں کچھ اور کھوج لگانے کا موقع ملا ۔ وہ کافی دلچسپی سے سالار کے کیس کو اسٹڈی کررہا تھا اور دلچسپی کی یہ نوعیت پروفیشنل نہیں ذاتی تھی ۔ اپنے کیرئیر میں وہ پہلی بار اس آئی کیوکے بچے کا سامنا کررہا تھا ۔
 سکندر کو آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد تھا ۔ سالار اس وقت صرف دو سال کا تھا اور غیر معمولی طور پر وہ اس عمر میں ایک عام بچے کی نسبت زیادہ صاف لہجے میں باتیں کرتا تھا ۔ اور باتوں کی نوعیت ایسی ہوتی تھی کہ وہ اور انکی بیوی اکثر حیران ہوتے ۔
 ایک دن جب وہ اپنے بھائی سے فون پر بات کرنے کے لئے فون کررہے تھے تو سالار ان کے پاس کھڑا تھا ۔ وہ اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے اور فون پر باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی بھی دیکھ رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد انہوں نے فون رکھ دیا ۔ ریسیور رکھنے کے فورا" بعد انہوں نے سالار کو فون کا ریسیور اٹھاتے ہوئے دیکھا ۔
 ہیلو انکل ، میں سالار ہوں ۔ وہ کہہ رہا تھا ۔ انہوں نے چونک کر اسے دیکھا ۔ وہ اطمینان سے ریسیور کان سے لگائے کسی سے باتوں میں مصروف تھا۔
 میں ٹھیک ہوں ۔ آپ کیسے ہیں ؟ سکندر نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ پہلے انکے ذہن میں یہی آیا کہ وہ جھوٹ موٹ فون پر باتیں کررہا ہے ۔
 پاپا میرے پاس بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہین ۔ نہیں ۔ انہوں نے فون نہیں کیا ۔ میں نے خود کیا ہے ۔ وہ اسکے اگلے جملے پر چونکے
سالار کس سے باتیں کررہے ہو ۔ سکندر سے پوچھا
 انکل شاہنواز سے۔ سالار نے سکندر کو جواب دیا ۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کرریسیور اس سے لے لیا ۔ انکا خیال تھا کہ اس نے غلطی سے کوئی نمبر ملا لیا ہوگا یا پھر لاسٹ نمبر کو ری ڈائل کردیا ہوگا ۔ انہوں نے کان سے ریسیور لگایا ۔ دوسری طرف انکے بھائی ہی تھے ۔
یہ سالار نے نمبر ڈائل کیا ہے ۔ انہوں نے معذرت کرتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا
 سالار نے کیسے ڈائل کیا ۔ وہ تو بہت چھوٹا ہے ۔ ان کے بھائی نے دوسری طرف کچھ حیرانی سے پوچھا
 میرا خیال ہے اس نے آپکا نمبر ری ڈائل کردیا ہے ۔ اتفاق سے ہاتھ لگ گیا ہوگا ۔ ہاتھ مار رہا تھا سیٹ پر ۔ انہوں نے فون بند کردیا اور ریسیور نیچے رکھ دیا ۔ سالار جو خاموشی سے ان کی گفتگو سننے میں مصروف تھا ریسیور نیچھے رکھتے ہی اس نے ایک بار پھر ریسیور اٹھالیا ۔ اس بار سکندر اسے دیکھنے لگے ۔ وہ بالکل کسی میچور آدمی کی طرح ایک بار پھر شاہنواز کا نمبر ڈائل کررہا تھا اور بڑی روانی کے ساتھ ۔ وہ ایک لمحہ کے لئے دم بخود رہ گئے ۔ دو سال کے بچے سے انہیں یہ توقع نہیں تھی ۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر کریڈل دبا دیا ۔
سالار تمہیں شاہنواز کا نمبر معلوم ہے ۔ انہوں نے حیرانی کے اس جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے کہا ۔
ہاں ۔ بڑے اطمینان سے جواب دیا گیا ۔
 کیا نمبر ہے ۔ اس نے بھی روانی سے وہ نمبر دہرادیا ۔ وہ اسکا چہرہ دیکھنے لگے ۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ گنتی کے اعداد سے واقف ہوگا اور پھر وہ نمبر ۔۔۔۔۔
تمہیں یہ نمبر کس نے سکھایا ؟
میں نے خود سیکھا ہے ۔
کیسے ؟
ابھی آپ نے ملایا تھا ۔ سالار نے انکو دیکھتے ہوئے کہا ۔
تمہیں گنتی آتی ہے ؟
ہاں
کہاں تک
ہنڈرڈ تک
سناؤ
 وہ مشین کی طرح شروع ہوگیا ۔ ایک ہی سانس میں اس نے انہیں سو تک گنتی سنا دی ۔ سکندر کے پیٹ میں بل پڑنے لگے
 اچھا ۔ میں ایک اور نمبر ڈائل کرتا ہوں میرے بعد تم اسے ڈائل کرنا ۔ انہوں نے ریسیور اس سے لیتے ہوئے کہا ۔
 اچھا ۔ سالار کو یہ سب ایک دلچسپ کھیل کی طرح لگا ۔ سکندر نے ایک نمبر ڈائل کیا اور پھر فون بند کردیا ۔ سالار نے فورا" ریسیور پکڑ کر روانی کے ساتھ وہ نمبر ملا دیا ۔ سکندر کا سر گھومنے لگا ۔ وہ واقعی وہی نمبر تھا جو انہوں نے ملایا تھا ۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی نمبر ملائے اور پھر سالار سے وہی نمبر ملانے کے لئے کہا ۔ وہ کوئی غلطی کئے بغیر وہی نمبر ملاتا رہا ۔ وہ یقینا" فوٹو گرافک میموری رکھتا تھا ۔ انہوں نے اپنی بیوی کو بلایا ۔
 میں نے اسے گنتی نہیں سکھائی ۔ میں نے تو بس کچھ دن پہلے اسے چند کتابیں لا کر دی تھیں اور کل ایک بار ایسے ہی اس کے سامنے سو تک گنتی پڑھی تھی ۔ انہوں نے سکندر کے استفسار پر کہا ۔ سکندر نے سالار کو ایک بار پھر گنتی سنانے کے لیے کہا ۔ وہ سناتا گیا ، انکی بیوی ہکا بکا اسے دیکھتی رہیں ۔
 دونوں میاں بیوی کویہ اندازہ ہوگیا تھا کہ انکا بچہ ذہنی اعتبار سے غیر معمولی صلاحیتیں رکھتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ان دونوں نے اپنے باقی بچوں کی نسبت اسے بہت جلد ہی اسکول میں داخل کروا دیا تھا اور اسکول میں بھی وہ اپنی ان غیر معمولی صلاحتیوں کی وجہ سے بہت جلد ہی دوسروں کی نظروں میں آگیا تھا ۔
 اس بچے کو آپ کی خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔ عام بچوں کی نسبت ایسے بچے زیادہ حساس ہوتے ہیں ، اگر آپ اسکی اچھی تربیت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ بچہ آپ کے اور آپ کے خاندان کے لئے ایک سرمایہ ہوگا ۔ نہ صرف خاندان کے لئے بلکہ آپ کے ملک کے لئے بھی ۔ سکندر اور ان کی بیوی اس غیر ملکی سائیکالوجسٹ کی باتیں بڑے فخریہ انداز میں سنتے رہے ۔ اپنے دوسرے بچوں کے مقابلے میں وہ سالار کو زیادہ اہمیت دینے لگے تھے ۔ وہ ان کی سب سے چہیتی اولاد تھا اور انہیں اس کی کامیابیوں پر فخر تھا ۔
 اسکول میں ایک ٹرم کے بعد اسے اگلی کلاس میں پرموٹ کردیا گیا ۔ اور دوسری ٹرم کے بعد اس سے اگلی کلاس میں اور اس وقت پہلی بار سکندر کو کچھ تشویش ہونے لگی ۔ وہ نہیں چاہتے تھے سالار آٹھ دس سال کی عمر میں جونیئر یا سینئر کیمرج کرلیتا ۔ مگر جس رفتار سے وہ ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جارہا تھا یہی ہونا تھا ۔
 میں چاہتا ہوں آپ میرے بیٹے کو اب پورے ایک سال بعد ہی اگلی کلاس میں پرموشن دیں ۔ میں نہیں چاہتا وہ اتنی جلدی ابنارمل طریقے سے اپنا ایکڈمک کیرئیر ختم کرلے۔ آپ اس کے سبجیکٹس اور ایکٹیوٹیز بڑھا دیں ۔ مگر اسے نارمل طریقے سے ہی پروموٹ کریں ۔
 ان کے اصرار پر سالار کو دوبارہ ایک سال کے اندر پروموشن نہیں دیا گیا ۔ اس کے ٹیلنٹ کو اسپورٹس اور دوسری چیزوں کے ذریعے چینلائز کیا جانے لگا ۔ شطرنج ، ٹینس، گالف ، اور میوزک ۔ وہ چار شعبے تھے جن میں اسے سب سے زیادہ دلچسپی تھی ۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ خود کو صرف ان چار چیزوں تک ہی محدود رکھتا تھا ۔ وہ اسکول میں ہونے والے تقریبا" ہر گیم میں شریک ہوتا تھا ۔ اگر کسی میں شریک نہیں ہوتا تھا تو اسکی وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ وہ گیم اسے زیادہ چیلنجنگ نہیں لگتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 جویریہ ! پروفیسر امتان کے لیکچر کے نوٹس مجھے دینا ۔ امامہ نے جویریہ کو مخاطب کیا جو ایک کتاب کھولے بیٹھی تھی ۔ جویریہ نے ہاتھ بڑھا کر اپنی ایک نوٹ بک اسے تھما دی ۔ امامہ نوٹ بک کھول کر صفحے پلٹنے لگی ۔ جویریہ ایک بارپھر کتاب کے مطالعے میں مصروف ہوگئی ۔ کچھ دیر بعد اچانک اسے جیسے ایک خیال آیا ۔ اس نے مڑ کر بستر پر بیٹھی ہوئی امامہ کو دیکھا ۔
 تم نے لیکچر نوٹ کرنا کیوں بند کردیا ہے ۔ اس نے امامہ کو مخاطب کیا ۔ امامہ نے نوٹ بک سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا
مجھے کچھ سمجھ میں آئے تو میں نوٹ کروں
 کیا مطلب ۔ تمہیں پروفیسر امتنان کا لیکچر بھی سمجھ نہیں آتا۔ جویریہ کو جیسے حیرت ہوئی ۔ اتنا اچھا تو پڑھاتے ہیں
میں نے کب کہا کہ برا پڑھاتے ہیں ۔ بس مجھے ۔۔۔۔۔۔
 اس نے کچھ الجھے ہوئے لہجے میں بات ادھوری چھوڑ دی ۔ وہ ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑی نوٹ بک کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔ جویریہ نے غور سے اسے دیکھا ۔
 تم آج کل کچھ غائب دماغ نہیں ہوتی جارہیں ۔ ڈسٹرب ہو کسی وجہ سے ؟ جویریہ نے اپنے سامنے رکھی کتاب بند کرتے ہوئے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہا ۔
ڈسٹرب ؟ وہ بڑبڑائی ۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
 تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے بھی پڑے ہوئے ہیں ۔ کل رات کو شاید ساڑھے تین کا وقت تھا جب میری آنکھ کھلی اور تم اس وقت بھی جاگ رہی تھیں ۔
میں پڑھ رہی تھی ۔ اس نے مدافعانہ لہجے میں کہا۔
 نہیں ۔ صرف کتاب اپنے سامنے رکھے بیٹھی ہوئی تھی ۔ مگر کتاب پر نظر نہیں تھی تمہاری ۔ جویریہ نے اس کا عذر رد کرتے ہوئے کہا ، تمہیں کوئی مسلئہ تو نہیں ہے ۔
کیا مسلئہ ہوسکتا ہے مجھے ۔
پھر تم اتنی چپ چپ کیوں رہنے لگی ہو ۔ جویریہ اس کی ٹال مٹول سے متاثر ہوئے بغیر بولی ۔
 نہیں ۔ میں کیوں چپ رہوں گی ۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی ۔ میں تو پہلے کی طرح ہی بولتی ہوں ۔
 صرف میں ہی نہیں ۔ باقی سب بھی تمہاری پریشانی کو محسوس کررہے ہیں ۔ جویریہ سنجیدگی سے بولی ۔
کوئی بات نہیں ہے ۔ صرف اسٹیڈیز کی ٹینشن ہے مجھے ۔
میں یقین نہیں کرسکتی ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں ۔ تمہیں ہم سے زیادہ ٹینشن تو نہیں ہوسکتی ۔
جویریہ نے سرہلاتے ہوئے کہا ۔ امامہ نے ایک گہرا سانس لیا ۔ وہ اب زچ ہورہی تھی ۔
تمہارے گھر میں تو خیریت ہے نا ؟
ہاں ۔ بالکل خیریت ہے
اسجد کے ساتھ تو کوئی جھگڑا نہیں ہوا
اسجد کے ساتھ جھگڑا کیوں ہوگا ۔ امامہ نے اسی کے انداز میں پوچھا
 پھر بھی اختلافات تو ایک بہت ہی ۔ ۔۔۔۔۔ جویرہ کی بات اس نے درمیاں میں ہی کاٹ دی ۔ جب کہہ رہی ہوں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تو تمہیں یقین کیوں نہیں آرہا ۔ اتنے سالوں سے کون سی بات ہے جو میں نے تم سے شیئر نہیں کی یا جو تمہیں پتا نہیں ہے پھر تم اس طرح مجھے مجرم سمجھ کر تفتیش کیوں کر رہی ہو ۔ وہ اب خفا ہورہی تھی
 جویریہ گڑبڑا گئی ۔ یقین کیوں نہیں کروں گی ، صرف اس لئے اصرار کررہی تھی کہ شاید تم مجھے اس لئے اپنا مسئلہ نہیں بتا رہی کہ میں پریشان نہ ہوں اور تو کوئی بات نہیں
 جویریہ کچھ نادم سی ہوکر اس کے پاس سے اٹھ کر واپس اپنی اسٹدی ٹیبل کے سامنے جا بیٹھی ۔ اس نے ایک بار پھر وہ کتاب کھول لی جسے وہ پہلے پڑھ رہی تھی ۔ کافی دیر تک کتاب پڑھتے رہنے کے بعد اس نے ایک جماہی لی اور گردن موڑ کر لاشعوری طور پر امامہ کو دیکھا ۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے اسکی نوٹ بک کھولے بیٹھی تھی مگر اسکی نظریں نوٹ بک پر نہیں تھیں وہ سامنے والی دیوار پر نظریں جمائے کہیں گم تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 جاری ہے

No comments:

Post a Comment