پیر کامل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر 3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر 3
مسز سمانتھا رچرڈز نے دوسری رو میں کھڑکی کے ساتھ پہلی کرسی پر بیٹھے ہوئے اس لڑکے کو چوتھی بار گھورا ۔ وہ اس وقت بھی بڑی بے نیازی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا ۔ وقتا" فوقتا" وہ باہر سے نظریں ہٹاتا ۔۔۔۔۔ ایک نظر مسز سمانتھا کو دیکھتا اس کے بعد پھر اسی طرح باہر جھانکنے لگتا ۔
اسلام آباد کے ایک غیر ملکی اسکول میں وہ آج پہلے دن اس کلاس کی بیالوجی پڑھانے کے لیے آئی تھیں ۔ وہ ایک ڈپلومیٹ کی بیوی تھیں اور کچھ دن پہلے ہی اسلام آباد اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں ۔ ٹیچنگ ان کا پروفیشن تھا اور جس جس ملک میں انکے شوہر کی پوسٹنگ ہوئی وہ وہاں کے سفارت خانہ سے منسلک اسکولز میں پڑھاتی رہیں ۔
اپنے سے پہلے بیالوجی پڑھانے والی ٹیچر مسز میرین کی سکیم آف ورک کو ہی جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کلاس کے ساتھ کچھ ابتدائی تعارف اور گفتگو کے بعد دل اور نظام دوران خون کی ڈایا گرام رائٹنگ بورڈ پر بناتے ہوئے سمجھانا شروع کیا۔
ڈایا گرام کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اس لڑکے کو کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا ۔ پرانی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی نظریں اس لڑکے پر مرکوز رکھتے ہوئے انہوں نے اچانک بولنا بند کردیا ۔ کلاس میں یک دم خاموشی چھا گئی ۔ اس لڑکے نے سر گھما کر اندر دیکھا ۔ مسز سمانتھا سے اسکی نظریں ملیں انہوں نے مسکرا کر ایک بار پھر اپنا لیکچر شروع کردیا ۔ کچھ دیرتک انہوں نے اسی طرح بولتے ہوئے اپنی نظریں لڑکے پر رکھیں جو اب اپنے سامنے پڑی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا اس کے بعد مسز سمانتھا نے اپنی توجہ کلاس میں موجود دوسرے اسٹوڈنٹس پر مرکوز کرلی ،انکا خیال تھا کہ وہ خاصا شرمندہ چکا ہے اس لیے اب دوبارہ باہر نہیں دیکھے گا ۔ لیکن صرف دو منٹ بعد ہی انہوں نے اسے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر متوجہ دیکھا ۔ وہ ایک بار پھر بولتے بولتے خاموش ہوگئیں ۔ بلا توقف اس لڑکے نے گردن موڑ کر پھر انکی طرف دیکھا ۔ اس بار مسز سمانتھا مسکرائیں نہیں بلکہ قدرے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر لیکچر دینا شروع کردیا ۔ چند لمحے گزرنے کے بعد انہوں نے رائٹنگ بورڈ پر کچھ لکھنے کے بعد اس لڑکے کی طرف دیکھا تو وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھنے میں مصروف تھا ۔ اس بار انکے چہرے پر کچھ ناراضی نمودار ہوئی اور وہ کچھ جھنجھلاتے ہوئے خاموش ہوگئی۔ اور انکے خاموش ہوتے ہی لڑکے نے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر انکی طرف دیکھا اس بار لڑکے کے ماتھے پر بھی کچھ شکنیں تھیں ۔ ایک نظر مسز سمانتھا کو ناگواری سے دیکھ کر وہ پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔
اسکا انداز اس قدر توہین آمیز تھا کہ مسز رچرڈز کا چہر سرخ ہوگیا ۔
سالار تم کیا دیکھ رہے ہو ۔ انہوں نے سختی سے پوچھا
یک لفظی جواب آیا ۔ وہ اب چبھتی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا Nothing
تمہیں پتا ہے میں کیا پڑھا رہی ہوں ؟
اس نے اتنے روڈ انداز میں کہا کہ سمانتھا نے یک دم ہاتھ میں پکڑا ہوا مارکر کیپHope so
سے بند کرکے ٹیبل پر پھینک دیا
یہ بات ہے تو پھر یہاں آؤ اور یہ ڈایا گرام بنا کر اس کو لیبل کرو ۔ انہوں نے اسفنج کے ساتھ
رائٹنگ بورڈ کو صاف کرتے ہوئے کہا ۔ یک بعد دیگرے لڑکے کے چہرے پر کئی رنگ آئے ۔ انہوں نے کلاس میں بیٹھے ہوئے اسٹوڈنٹس کو آپس میں نظروں کا تبادلہ کرتے دیکھا ۔ وہ لڑکا اب سرد نظروں کے ساتھ سمانتھا کو دیکھ رہا تھا ۔ جیسے ہی انہوں نے رائٹنگ بورڈ سے آخری نشان صاف کیا وہ اپنی کرسی سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھا ، تیز تیز قدموں کے ساتھ اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا مارکر اٹھایا اور برق رفتاری کے ساتھ رائٹنگ بورڈ پر ڈایا گرام بنانے لگا ۔ پورے دو منٹ ستاون سیکنڈز بعد اس نے مارکر پر کیپ لگا کر اسے میز پراسی انداز سے اچھالا جس انداز سے سمانتھا نے اچھالا تھا اور انکی طرف دیکھے بغیر اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا ۔ مسز سمانتھا نے اسے مارکر اچھالتے یا اپنی کرسی کی طرف جاتے نہیں دیکھا ۔ وہ بے یقینی کے عالم میں رائٹنگ بورڈ پر تین منٹ سے بھی کم عرصہ میں بنائی جانے والی اس لیبلڈ ڈایا گرام کو دیکھ رہی تھیں جسے بنانے میں انہوں نے دس منٹ لیے تھے اوریہ تین منٹ میں بننے والی ڈایا گرام انکی ڈایا گرام سے زیادہ اچھی تھی ۔ وہ اس میں معمولی سی بھی غلطی نہیں ڈھونڈ سکیں ۔ کچھ خفیف ہوتے ہوئے انہوں نے گردن موڑ کر اس لڑکے کی طرف دیکھا تو وہ پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم نے تیسری بار دروازے پر دستک دی ۔ اس بار اندر سے امامہ کی آواز سنائی دی
کون ہے
امامہ ۔ میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھولو ۔ وسیم نے دروازے سے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا ۔ اندر خاموشی چھا گئی
کچھ دیر بعد لاک کھلنے کی آواز آئی ۔ وسیم نے دروازہ کھول دیا ۔ امامہ اسکی جانب پشت کیے اپنے بیڈ کی طرف بڑھی
تمہیں اس وقت کیا کام آن پڑا ہے مجھ سے؟
آخر تم نے اتنی جلدی دروازہ کیوں بند کرلیا تھا ۔ ابھی تو دس بجے ہیں ۔ وسیم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا ۔
بس نیند آرہی تھی مجھے ۔ وہ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ وسیم اسکا چہرہ دیکھ کر چونک گیا ۔
تم رو رہی تھیں ؟ بے اختیار اسکے منہ سے نکلا ۔ امامہ کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں اور وہ اس سے نظریں چرانے کی کوشش کررہی تھی
نہیں رو نہیں رہی تھی بس سر میں کچھ درد ہورہا تھا ۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی
وسیم نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ کر ٹمپریچر چیک کرنے کی کوشش کی
کہیں بخار تو نہیں ہے ۔ اس نے تشویش بھرے انداز میں کہا اور پھر ہاتھ چھوڑ دیا ۔ بخار تو نہیں ہے ۔ پھر تم کوئی ٹیبلٹ لے لیتیں
میں لے چکی ہوں
اچھا تم سو جاؤ ۔ ۔۔۔۔ میں باتیں کرنے آیا تھا مگر اب اس حالت میں کیا باتیں کروں گا تم سے
وسیم نے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا ۔ امامہ نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ خود بھی اٹھ کر اس کے پیچھے گئی اور وسیم کے باہر نکلتے ہی اس نے دروازے کو پھر سے لاگ کرلیا ۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا ۔ وہ ایک بار پھر ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرہ سال کا وہ لڑکا اس وقت ٹی وی پر میوزک شو دیکھنے میں مصروف تھا ۔ جب طیبہ نے اندر جھانکا ۔ بے یقینی سے انہوں نے اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر کچھ ناراضی کے عالم میں اندر چلی آئیں
یہ کیا ہو رہا ہے ۔ انہوں نے اندر آتے ہی کہا
ٹی وی دیکھ رہا ہوں ۔ لڑکے نے ٹی وی سے نطریں نہیں ہٹائیں
ٹی وی دیکھ رہا ہوں ؟ ۔۔۔۔۔۔ فار گاڈ سیک ۔ تمہیں احساس ہے کہ تمہارے پیپرز ہو رہے ہیں ؟ طیبہ نے اسکے سامنے آتے ہوئے کہا ۔
سو واٹ ۔ لڑکے نے اس بار کچھ خفگی سے کہا ۔
سو واٹ ؟ تمہیں اس وقت اپنے کمرے میں کتابوں کے درمیاں ہونا چاہیے نہ کہ یہاں اس بے ہودہ شو کے سامنے ۔ طیبہ نے ڈانٹا
مجھے جتنا پڑھنا تھا میں پڑھ چکا ہوں آپ سامنے سے ہٹ جائیں ۔۔۔۔۔ اس کے لہجے میں ناگواری آگئی
پھر بھی اٹھو اور اندر جاکر پڑھو ۔ طیبہ نے اسی طرح کھڑے کھڑے اس سے کہا
نہ میں یہاں سے اٹھوں گا نہ اندر جاکر پڑھوں گا ۔ میری اسٹدیز اور پیپرز میرا مسئلہ ہیں ۔ آپ کا نہیں ۔
اگر تمہیں اتنی پرواہ ہوتی تو تم اس وقت یہاں بیٹھے ہوتے ؟
اس نے طیبہ کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی بدتمیزی سےہاتھ سےStep a side
اشارہ کرتے ہوئے کہا
آج تمہارے پاپا آ جائیں تو میں ان سے بات کرتی ہوں ۔ طیبہ نے اسے دھمکانے کی کوشش کی
ابھی بات کرلیں ۔۔۔۔۔ کیا ہوگیا ؟ پاپا کیا کرلیں گے ۔ جب میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے جتنی تیاری کرنی تھی میں نے کرلی ہے تو پھر آپ کو کیا مسئلہ ہے ۔
یہ تمہارے سالانہ امتحان ہیں تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے ۔ طیبہ نے اپنے لہجے کو نرم کرتے ہوئے کہا ۔
میں کوئی دو چار سال کا بچہ نہیں ہوں کہ میرے آگے پیچھے پھرنا پڑے آپ کو ۔ میں اپنے معاملات میں آپ سے زیادہ سمجھ دار ہوں ۔ اس لیے یہ تھرڈ کلاس قسم کے جملے مجھ سے نہ بولا کریں ۔ ایگزام ہورہے ہیں ، اسٹدیز پر دھیان دو ۔ اس وقت تمہیں اپنے کمرے میں ہونا چاہیے ۔ میں تمہارے فادر سے بات کروں گی
What rubbish
وہ بات کرتے کرتے غصے میں صوفہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا ریموٹ اس نے پوری قوت سے سامنے والی دیوار پر دے مارا اور پاؤں پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا
طیبہ بے بسی اور خفت کے عالم میں اسے کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھتی رہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے )
اسلام آباد کے ایک غیر ملکی اسکول میں وہ آج پہلے دن اس کلاس کی بیالوجی پڑھانے کے لیے آئی تھیں ۔ وہ ایک ڈپلومیٹ کی بیوی تھیں اور کچھ دن پہلے ہی اسلام آباد اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں ۔ ٹیچنگ ان کا پروفیشن تھا اور جس جس ملک میں انکے شوہر کی پوسٹنگ ہوئی وہ وہاں کے سفارت خانہ سے منسلک اسکولز میں پڑھاتی رہیں ۔
اپنے سے پہلے بیالوجی پڑھانے والی ٹیچر مسز میرین کی سکیم آف ورک کو ہی جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کلاس کے ساتھ کچھ ابتدائی تعارف اور گفتگو کے بعد دل اور نظام دوران خون کی ڈایا گرام رائٹنگ بورڈ پر بناتے ہوئے سمجھانا شروع کیا۔
ڈایا گرام کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اس لڑکے کو کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا ۔ پرانی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی نظریں اس لڑکے پر مرکوز رکھتے ہوئے انہوں نے اچانک بولنا بند کردیا ۔ کلاس میں یک دم خاموشی چھا گئی ۔ اس لڑکے نے سر گھما کر اندر دیکھا ۔ مسز سمانتھا سے اسکی نظریں ملیں انہوں نے مسکرا کر ایک بار پھر اپنا لیکچر شروع کردیا ۔ کچھ دیرتک انہوں نے اسی طرح بولتے ہوئے اپنی نظریں لڑکے پر رکھیں جو اب اپنے سامنے پڑی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا اس کے بعد مسز سمانتھا نے اپنی توجہ کلاس میں موجود دوسرے اسٹوڈنٹس پر مرکوز کرلی ،انکا خیال تھا کہ وہ خاصا شرمندہ چکا ہے اس لیے اب دوبارہ باہر نہیں دیکھے گا ۔ لیکن صرف دو منٹ بعد ہی انہوں نے اسے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر متوجہ دیکھا ۔ وہ ایک بار پھر بولتے بولتے خاموش ہوگئیں ۔ بلا توقف اس لڑکے نے گردن موڑ کر پھر انکی طرف دیکھا ۔ اس بار مسز سمانتھا مسکرائیں نہیں بلکہ قدرے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر لیکچر دینا شروع کردیا ۔ چند لمحے گزرنے کے بعد انہوں نے رائٹنگ بورڈ پر کچھ لکھنے کے بعد اس لڑکے کی طرف دیکھا تو وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھنے میں مصروف تھا ۔ اس بار انکے چہرے پر کچھ ناراضی نمودار ہوئی اور وہ کچھ جھنجھلاتے ہوئے خاموش ہوگئی۔ اور انکے خاموش ہوتے ہی لڑکے نے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر انکی طرف دیکھا اس بار لڑکے کے ماتھے پر بھی کچھ شکنیں تھیں ۔ ایک نظر مسز سمانتھا کو ناگواری سے دیکھ کر وہ پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔
اسکا انداز اس قدر توہین آمیز تھا کہ مسز رچرڈز کا چہر سرخ ہوگیا ۔
سالار تم کیا دیکھ رہے ہو ۔ انہوں نے سختی سے پوچھا
یک لفظی جواب آیا ۔ وہ اب چبھتی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا Nothing
تمہیں پتا ہے میں کیا پڑھا رہی ہوں ؟
اس نے اتنے روڈ انداز میں کہا کہ سمانتھا نے یک دم ہاتھ میں پکڑا ہوا مارکر کیپHope so
سے بند کرکے ٹیبل پر پھینک دیا
یہ بات ہے تو پھر یہاں آؤ اور یہ ڈایا گرام بنا کر اس کو لیبل کرو ۔ انہوں نے اسفنج کے ساتھ
رائٹنگ بورڈ کو صاف کرتے ہوئے کہا ۔ یک بعد دیگرے لڑکے کے چہرے پر کئی رنگ آئے ۔ انہوں نے کلاس میں بیٹھے ہوئے اسٹوڈنٹس کو آپس میں نظروں کا تبادلہ کرتے دیکھا ۔ وہ لڑکا اب سرد نظروں کے ساتھ سمانتھا کو دیکھ رہا تھا ۔ جیسے ہی انہوں نے رائٹنگ بورڈ سے آخری نشان صاف کیا وہ اپنی کرسی سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھا ، تیز تیز قدموں کے ساتھ اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا مارکر اٹھایا اور برق رفتاری کے ساتھ رائٹنگ بورڈ پر ڈایا گرام بنانے لگا ۔ پورے دو منٹ ستاون سیکنڈز بعد اس نے مارکر پر کیپ لگا کر اسے میز پراسی انداز سے اچھالا جس انداز سے سمانتھا نے اچھالا تھا اور انکی طرف دیکھے بغیر اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا ۔ مسز سمانتھا نے اسے مارکر اچھالتے یا اپنی کرسی کی طرف جاتے نہیں دیکھا ۔ وہ بے یقینی کے عالم میں رائٹنگ بورڈ پر تین منٹ سے بھی کم عرصہ میں بنائی جانے والی اس لیبلڈ ڈایا گرام کو دیکھ رہی تھیں جسے بنانے میں انہوں نے دس منٹ لیے تھے اوریہ تین منٹ میں بننے والی ڈایا گرام انکی ڈایا گرام سے زیادہ اچھی تھی ۔ وہ اس میں معمولی سی بھی غلطی نہیں ڈھونڈ سکیں ۔ کچھ خفیف ہوتے ہوئے انہوں نے گردن موڑ کر اس لڑکے کی طرف دیکھا تو وہ پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم نے تیسری بار دروازے پر دستک دی ۔ اس بار اندر سے امامہ کی آواز سنائی دی
کون ہے
امامہ ۔ میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھولو ۔ وسیم نے دروازے سے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا ۔ اندر خاموشی چھا گئی
کچھ دیر بعد لاک کھلنے کی آواز آئی ۔ وسیم نے دروازہ کھول دیا ۔ امامہ اسکی جانب پشت کیے اپنے بیڈ کی طرف بڑھی
تمہیں اس وقت کیا کام آن پڑا ہے مجھ سے؟
آخر تم نے اتنی جلدی دروازہ کیوں بند کرلیا تھا ۔ ابھی تو دس بجے ہیں ۔ وسیم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا ۔
بس نیند آرہی تھی مجھے ۔ وہ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ وسیم اسکا چہرہ دیکھ کر چونک گیا ۔
تم رو رہی تھیں ؟ بے اختیار اسکے منہ سے نکلا ۔ امامہ کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں اور وہ اس سے نظریں چرانے کی کوشش کررہی تھی
نہیں رو نہیں رہی تھی بس سر میں کچھ درد ہورہا تھا ۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی
وسیم نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ کر ٹمپریچر چیک کرنے کی کوشش کی
کہیں بخار تو نہیں ہے ۔ اس نے تشویش بھرے انداز میں کہا اور پھر ہاتھ چھوڑ دیا ۔ بخار تو نہیں ہے ۔ پھر تم کوئی ٹیبلٹ لے لیتیں
میں لے چکی ہوں
اچھا تم سو جاؤ ۔ ۔۔۔۔ میں باتیں کرنے آیا تھا مگر اب اس حالت میں کیا باتیں کروں گا تم سے
وسیم نے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا ۔ امامہ نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ خود بھی اٹھ کر اس کے پیچھے گئی اور وسیم کے باہر نکلتے ہی اس نے دروازے کو پھر سے لاگ کرلیا ۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا ۔ وہ ایک بار پھر ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرہ سال کا وہ لڑکا اس وقت ٹی وی پر میوزک شو دیکھنے میں مصروف تھا ۔ جب طیبہ نے اندر جھانکا ۔ بے یقینی سے انہوں نے اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر کچھ ناراضی کے عالم میں اندر چلی آئیں
یہ کیا ہو رہا ہے ۔ انہوں نے اندر آتے ہی کہا
ٹی وی دیکھ رہا ہوں ۔ لڑکے نے ٹی وی سے نطریں نہیں ہٹائیں
ٹی وی دیکھ رہا ہوں ؟ ۔۔۔۔۔۔ فار گاڈ سیک ۔ تمہیں احساس ہے کہ تمہارے پیپرز ہو رہے ہیں ؟ طیبہ نے اسکے سامنے آتے ہوئے کہا ۔
سو واٹ ۔ لڑکے نے اس بار کچھ خفگی سے کہا ۔
سو واٹ ؟ تمہیں اس وقت اپنے کمرے میں کتابوں کے درمیاں ہونا چاہیے نہ کہ یہاں اس بے ہودہ شو کے سامنے ۔ طیبہ نے ڈانٹا
مجھے جتنا پڑھنا تھا میں پڑھ چکا ہوں آپ سامنے سے ہٹ جائیں ۔۔۔۔۔ اس کے لہجے میں ناگواری آگئی
پھر بھی اٹھو اور اندر جاکر پڑھو ۔ طیبہ نے اسی طرح کھڑے کھڑے اس سے کہا
نہ میں یہاں سے اٹھوں گا نہ اندر جاکر پڑھوں گا ۔ میری اسٹدیز اور پیپرز میرا مسئلہ ہیں ۔ آپ کا نہیں ۔
اگر تمہیں اتنی پرواہ ہوتی تو تم اس وقت یہاں بیٹھے ہوتے ؟
اس نے طیبہ کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی بدتمیزی سےہاتھ سےStep a side
اشارہ کرتے ہوئے کہا
آج تمہارے پاپا آ جائیں تو میں ان سے بات کرتی ہوں ۔ طیبہ نے اسے دھمکانے کی کوشش کی
ابھی بات کرلیں ۔۔۔۔۔ کیا ہوگیا ؟ پاپا کیا کرلیں گے ۔ جب میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے جتنی تیاری کرنی تھی میں نے کرلی ہے تو پھر آپ کو کیا مسئلہ ہے ۔
یہ تمہارے سالانہ امتحان ہیں تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے ۔ طیبہ نے اپنے لہجے کو نرم کرتے ہوئے کہا ۔
میں کوئی دو چار سال کا بچہ نہیں ہوں کہ میرے آگے پیچھے پھرنا پڑے آپ کو ۔ میں اپنے معاملات میں آپ سے زیادہ سمجھ دار ہوں ۔ اس لیے یہ تھرڈ کلاس قسم کے جملے مجھ سے نہ بولا کریں ۔ ایگزام ہورہے ہیں ، اسٹدیز پر دھیان دو ۔ اس وقت تمہیں اپنے کمرے میں ہونا چاہیے ۔ میں تمہارے فادر سے بات کروں گی
What rubbish
وہ بات کرتے کرتے غصے میں صوفہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا ریموٹ اس نے پوری قوت سے سامنے والی دیوار پر دے مارا اور پاؤں پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا
طیبہ بے بسی اور خفت کے عالم میں اسے کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھتی رہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے )
سبق آموز ،
ReplyDeleteمعلوماتی ,
شیخ سعدی کی کہانیاں اور
اسلامی واقعات
سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اچھی اچھی معلومات کے لیے یہاں کلک کریں