*سسی پنوں*
*الماس ایم اے*
قسط نمبر :- 1
وہ پیدائشی اندھا نہ تھا۔
پانچ سال پہلے اس کی آنکھوں میں موتیا اترا اور ہمیشہ کے لئے نابینا ہو گیا۔ وہ ذات کا برہمن تھا، ہندو مذہب میں یہ سب سے اونچی اور قابل احترام ذات کہی جاتی ہے۔ وہ مذہبی تعلیم کا بڑا ماہر تھا۔ اگرچہ جوان تھا لیکن دور دور سے بڑے بڑے پنڈت اس سے گیتا کے نکتے سمجھنے آتے تھے۔ اس گیان دھیان اور اپنی بے پناہ دولت کی وجہ سے وہ زمین پر قدم نہ رکھتا تھا۔ بھمبور کے علاوہ ارد گرد کے بہت سے مندروں کا وہ گرو پنڈت تھا۔ ان مندروں میں جو نذرانے چڑھتے ان میں آدھا حصہ سورداس کا ہوتا تھا۔
یہ واقعہ اس کی عمر کے پچیسویں سال(25) کا ہے۔ اس وقت تک اس نے شادی نہ کی تھی۔ اور نہ اس کا کوئی ارادہ تھا لیکن نہ جانے اچانک اسے کیا ہوا کہ ایک دن صبح کے وقت جب کہ مندر میں پجاریوں کا ہجوم تھا، اس نے مسکراتے ہوئے اعلان کیا:
"میں بہت جلد شادی کر رہا ہوں ”
"کس سے ؟” اس کے ایک ساتھی پنڈت نے پوچھا۔
"بس دیکھ لینا، پہلے سے نہیں بتاؤں گا۔ ” سور داس ٹال گیا۔
"کوئی بھی ہو مگر اس کی قسمت کھل جائے گی۔ سونے میں پیلی ہو جائے گی” ایک اور ساتھی نے تبصرہ کیا شام ہوتے ہوتے یہ بات پورے بھمبور میں پھیل گئی کہ بڑا پنڈت شادی کر رہا ہے۔ کس سے کر رہا ہے اس کا علم کسی کو نہ تھا۔ مگر اس بارے میں ابھی ابھی گفتگو ضرور ہو رہی تھی۔ لوگوں کو یہ تو معلوم تھا کہ سور داس آج کل مندر آنے والی ایک خوبصورت عورت سے خوب ہنس ہنس کے باتیں کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسی سے شادی کر رہا ہو۔ مگر یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی تھی۔
پھر ایک دن سور داس نے اپنی ہونے والی جیون ساتھی کا نام ظاہر کر دیا۔ لوگ جس کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔ یہ وہی عورت تھی۔ اسے عورت تو نہیں کہہ سکتے کہ ابھی تک اس کی شادی نہ ہوئی تھی مگر بیس سال کی یہ دوشیزہ اس قدر سمجھ دار تھی کہ لوگ نہ صرف اس کی تعریف کرتے بلکہ عزت بھی کرتے تھے، وہ بھمبور کے بڑے مندر میں جہاں کا سورداس بڑا پنڈت تھا، نہ صرف روز آتی بلکہ وہاں گھنٹوں عبادت میں مصروف رہتی۔ اس کے بارے میں لوگوں کا عام خیال تھا کہ اس نے اپنی زندگی عبادت اور مندر کے لیے تج دی ہے اور یہ کہ وہ کبھی شادی نہ کرے گی۔
دوشیزہ بھی ایک پنڈت کی بیٹی تھی۔ اس کا نام تو کسی کو معلوم نہ تھا مگر اپنی عبادت کی وجہ سے وہ لوگوں میں "دیوی” کے نام سے مشہور ہو گئی تھی۔ دیوی اور سورداس کو مندر میں آنے جانے والوں نے اکثر باتیں کرتے دیکھا تھا لیکن وہ ان پر شبہ نہ کرتے تھے بلکہ اسے بھی مذہبی گفتگو کا نام دیتے تھے۔ پھر جب سورداس نے دیوی سے شادی کرنے کا اعلان کیا تو لوگوں کو کچھ زیادہ تعجب نہ ہوا بلکہ انہوں نے اسے سراہا۔
سورداس کی صحت قابل رشک تھی۔ وہ گوری رنگت، مضبوط ہاتھ پیر اور دراز قامت جوان تھا۔ یہ ضرور تھا کہ اس کے چہرے پر نرمی یا مسکراہٹ کے بجائے ایک طرح کی سختی اور کرختگی رہتی تھی۔ لوگ اسے مغرور سمجھتے مگر عزت بھی کرتے تھے۔ غرور کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ لوگوں سے الگ تھلک رہنے کا عادی تھا مگر مذہبی فرائض کی ادائیگی میں بہت پکا تھا اس کی عزت کی یہی وجہ تھی۔
سور داس کی شادی کا اعلان ہو گیا۔ وہ خود کافی مالدار تھا، اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہ تھی، لیکن بھمبور کے ہندو معززین اور مندر کے ساتھیوں نے اس کی شادی کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کر دیا۔ سورداس نے اس پر کوئی تبصرہ نہ کیا اور تیاریاں شروع ہو گئیں۔ انتہائی مغرور اور خودسر ہونے کے باوجود لوگ سورداس کی علمیت کی وجہ سے اس کی قدر کرتے تھے اور اسے خوش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
مگر یہ سورداس کی قسمت تھی یا بد قسمتی کہ شادی سے صرف ایک ہفتہ پہلے اس کی دونوں آنکھوں میں "موتیا” کا ایک ساتھ حملہ ہوا اور تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔ سور داس کی آنکھیں جاتی رہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہو گیا۔ لوگ کہتے تھے۔ یہ سیاہ موتیا کا حملہ تھا جس کا علاج اس دور میں قطعی ناممکن تھا۔ سورداس کے ساتھ ہی حسین دوشیزہ”دیوی” کی دنیا بھی اندھیر ہو گئی۔ شادی کی تاریخ یوں گزر گئی جیسے کسی کو کچھ پتہ ہی نہ تھا۔ اس کے تمام ساتھی اور مندر والے حکیموں کے پاس بھاگ رہے تھے۔ ایسے عالم میں کہاں کی شادی اور کس کی شادی مگر دیوی واقعی”دیوی” نکلی۔ اس نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ جب سب لوگ سور داس کی آنکھوں کی طرف سے مایوس ہو گئے اور معالجوں نے صاف جواب دے دیا تو ایک دن "دیوی” سور داس کے پس پہنچی۔ اس وقت اور بہت سے لوگ سورداس کی ہمدردی اور مزاج پرسی کے لیے آئے ہوئے تھے۔
ایسے موقع اور اس بھری محفل میں "دیوی” نے واضح الفاظ میں کہا:
"میں آپ سب کے سامنے کہہ رہی ہوں کہ عورت صرف ایک بار شادی کرتی ہے۔ میں نے بھگوان داس سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ اگرچہ ان کی آنکھیں نہ رہیں مگر میرا وعدہ اپنی جگہ قائم ہے۔ میں ان سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ اگر بھگوان داس انکار کریں گے تو میں عمر بھر شادی نہ کروں گی اور ایک ودھوا(بیوہ) کی طرح زندگی گزار دوں گی۔ ”
تمام حاضرین نے "دیوی” کے فیصلے پر پہلے تو تعجب کیا پھر اسے سراہا۔
"دیوی” واقعی دیوی ہے۔ ہم بھگوان داس سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ دیوی کے فیصلہ کو عملی جامعہ پہنائیں۔ ”
بھگوان داس کو کیا عذر ہو سکتا تھا۔ ان کے ارمانوں پر تو اوس پڑ گئی تھی۔ دیوی کے اس فیصلے سے ان کے خزاں رسیدہ چمن میں جیسے بہار آ گئی۔ پھر دوسرے ہی دن "دیوی "بھگوان داس سے شادی کر کے اندھے بھگوان داس کی لاٹھی بن گئی۔ بھگوان کا اصل نام یہی تھا مگر آنکھوں کے ضائع ہو جانے کی وجہ سے وہ "سور داس”پکارے جانے لگے تھے۔ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد "دیوی” اور "سورداس” کی زندگی بہت اچھی گزرنے لگی تھی۔ جو دیکھتا تھا حیران رہ جاتا تھا۔ "دیوی” اپنے شوہر کو اس کے اندھے پن کا احساس نہ ہونے دیتی تھی۔ وہ سایہ کی طرح سور داس کے ساتھ رہتی تھی۔ "دیوی ” خود بھی پڑھی لکھی تھی۔ اس لیے وہ سور داس کو کتابیں پڑھ کے سناتی تھی تاکہ سور داس کو لوگوں کے سوالات کے جواب دینے میں دقت نہ ہو۔
سورداس اور دیوی کے تین سال ہنسی خوشی گزرے پھر چوتھے سال ایک بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ دیوی کا پاؤں بھاری ہوا اور ٹھیک نو ماہ بعد اس نے ایک چاند سی بچی کو جنم دیا۔ تمام مندوں میں خوشی منائی گئی، دیوی اور سورداس کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ہندوؤں کے براہمن گھرانے میں پیدا ہونے والی بچی یا بچے کی جنم پتری بنانے کا عام رواج تھا۔ راجہ مہاراجہ کے یہاں تو اس پر سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔
سورداس کوئی راجہ نہ تھا مگر اسے اپنے حلقوں میں راجہ جیسی عزت حاصل تھی۔ چنانچہ اس نے اپنی بچی کی جنم پتری بنانے کی خواہش کی۔ بچی کی پیدائش کے چھٹے دن بھمبور اور قرب و جوار کے تمام جوتشی سور داس کی بیٹی کی جنم پتری تیار کرنے کے لیے سرجوڑ کے بیٹھے۔
اس دن پورا مندر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ سور داس اور دیوی کی سب لوگ عزت کرتے تھے۔ اس لیے انہیں ان کی نومولود بچی کی جنم پتری سے بھی دلچسپی تھی۔ وہ بھی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ اس بچی کو آئندہ زندگی میں کیا کیا واقعات پیش آئیں گے۔ یہی دیکھنے اور سننے کے لیے وہ آج مندر میں جمع ہوئے تھے۔
تمام جوتشی الگ الگ اپنے انداز اور طریقے سے جنم پتری تیار کر رہے تھے۔ وہ ستاروں کی چالوں سے حساب لگا رہے تھے اور ہر دن اور ہر ماہ وسال کے نتیجے کو زائچے کے خانوں میں لکھتے جا رہے تھے۔ بڑا گھمبیر ماحول تھا۔ ہر شخص زائچہ کا نتیجہ سننے کے لیے دم بخود تھا۔ اور ہر ایک کی نظر زائچہ بنانے والے جوتشیوں پر لگی تھی۔
اس وقت ایک جوتشی گھبرا کر چیخ پڑا۔
"ارے یہ کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اور اس نے بو کھلا کے دوسرے جوتشیوں کودیکھا۔ سب جوتشی اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔
"کیا ہوا کوئی خاص بات معلوم ہوئی ہے تمہیں ؟” ایک جوتشی نے اس سے پوچھا۔
"ہاں ہاں ایک بات۔ ایک بری خبر”جوتشی کہتے کہتے چپ ہو گیا۔
بری خبر کی آواز سورداس کے کانوں تک بھی پہنچی۔ اس کی دیوی نے سنا مگر خاموش رہی۔ سورداس بے چین ہو گیا۔ اس نے چیخ کے پوچھا:
"کیا بری خبر ہے میری بیٹی کے بارے میں ؟”
پہلے جوتشی نے کچھ بتانے کے بجائے آہستہ سے کہا۔
"مہاراج سورداس جلدی نہ کیجئے ہمیں پورا حساب لگانے دیجیے ”
اس طرح وہ سور داس کو خاموش کرا کے دوسرے جوتشیوں سے آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا۔ پھر اس نے اپنا حساب لگایا کاغذ دوسرے جوتشیوں کو دکھایا۔ ان لوگوں نے اپنے تیار کئے ہوئے زائچے اور حساب دیکھے اور بڑے بحث و مباحثہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ پہلے جوتشی کی تیار کی ہوئی”جنم پتری” درست ہے۔ اور اس کے حساب و کتاب میں کوئی گڑ بڑ نہیں۔ اس زائچہ کے مطابق سب نے اپنے اپنے زائچہ درست کئے پھر پہلے جوتشی سے کہا کہ وہ نومولود بچی کے اس واقعہ کو بیان کر دے جس نے سب کو پریشان کر دیا ہے۔
"سنئے سور داس اور دیوی جی!” پہلے جوتشی نے واضح الفاظ اور آواز میں کہا۔ "اس نوزائیدہ بچی کی جنم پتری جس پر ہم سب جوتشیوں نے اتفاق کیا ہے وہ صاف صاف بتاتی ہے کہ برہمن ذات کی یہ ہندو بچی جوان ہونے پر ایک مسلمان سے شادی کرے گی۔ ”
اور اس کی آواز میں دوسری آوازیں ملتی چلی گئیں۔
"ہندو لڑکی کی مسلمان سے کیسے شادی ہو سکتی ہے۔ ”
"یہ ناممکن ہے ”
اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ”
"یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے بڑے برہمن اور ایسی پاک باز دیوی کی شادی غیر ذات اور غیر مذہب میں ہو”
"اس سے ہمارا مذہب بھسم ہو جائے گا۔ ”
"ایسی لڑکی کو فوراً ختم کر دینا چاہیے۔ ”
"ہاں اس کا گلہ دبا دیا جائے۔ ”
"اسے دھرم پر قربان کر دینا چاہیے۔ ”
یہ آواز تیز اور شور بڑھتا ہی گیا اور اس میں اس قدر تیزی آ گئی کہ کوئی آواز صاف سنائی نہ دیتی تھی۔ سور داس اور نومولود بچی کی ماں "دیوی” بالکل خاموش تھے حالانکہ ان کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا۔ سورداس کی آنکھیں تو خشک تھیں لیکن”دیوی” کی آنکھوں میں آنسو گرنے کے لیے بے چین نظر آتے تھے۔
آخر سور داس کی گرجدار آواز بلند ہوئی اور ہر طرف سناٹا چھا گیا:
"جوتشی نے جو کہا وہ سب جوتشیوں کا متفقہ فیصلہ ہے۔ اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ ہمارے جوتشی آسمانی دیوتاؤں کے ہم نشیں بلکہ ہمارے لیے دیوتاؤں کے مانند ہیں۔ یہ وہی کہتے ہیں جو بھگوان انہیں بتاتا ہے۔ ان کی زبان بھگوان کی زبان ہے۔ جوتشیوں نے جنم پتری سے یہ بات نکالی ہے کہ جوان ہونے پر یہ بچی جس نے ایک برہمن کے گھر میں جنم لیا۔ اور ایک برہمن پارسادیوی کے شکم سے پیدا ہوئی۔ وہ کسی مسلمان سے شادی کرے گی۔ یہ خبر نہ صرف میرے لیے بلکہ تمام ہندو قوم کے لیے باعث شرم ہے۔ دھرم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور یہ بچی دین دھرم کے لیے منحوس ہے۔ ”
سور داس کے ٹھہر کے سانس لی پھر بولنا شروع کیا:
"اس خبر کے سننے کے ساتھ ہی مجھے اس لڑکی سے جو محبت بحیثیت ایک باپ کے پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔ اور اس کی جگہ نفرت نے لے لی ہے مجھے یقین ہے کہ یہی کیفیت میری بیوی "دیوی” کی بھی ہو گی۔ ”
لوگوں کی تمام نظریں سمٹ کر فوراً دیوی پر جم گئیں۔ دیوی نے جو خود کو لوگوں کی نظروں کے گرداب میں پایا تو اشکبار آنکھوں کے ساتھ سرہلا کر اپنے شوہر کی بات کی تصدیق کی۔
اس وقت لوگوں کی آوازوں کا غلغلہ اٹھا :
"دیوی سور داس کی بات کی تصدیق کر رہی ہیں۔ ”
سور داس نے فوراً بات اگے بڑھائی:
"یہ تو طے ہے کہ اس لڑکی کی پرورش میرے گھر میں نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ایک منحوس لڑکی سے زندہ رہنے کا حق چھین لینا چاہیے۔ مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن ہمارا راجہ بادشاہ آدم جان ہے جو ایک مسلمان ہے۔ اگر ہم نے بچی کا گلہ دبا کر یا کسی اور طرح مار ڈالا اور بات کھل گئی تو ہم سب کی شامت آ جائے گی۔ اس لیے اس سلسلے میں ایسی تدبیر کی جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ”
ایک اور گیانی(دانشور) نے کچھ معقول مشورہ دیا۔ اس نے کہا:
"یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچی کو ایک لکڑی کے صندوق میں ڈال کر دریا میں بہا دیا جائے۔ اب یہ اس کی قسمت کہ زندہ بچے یا ڈوب جائے۔ بہر حال یہ نحوست اور کلنک اس گھر سے نکل جائے گا۔ ”
اس مشورہ کو سب نے پسند کیا ممتا کی ماری "دیوی” کی سسکیاں بھی اک دم رک گئیں شاید اس خیال سے کہ بچی کو صندوق میں ڈالنے کے بہانے سے اس کے زندہ بچ جانے کی ایک امید موہوم کا پہلو نکلتا تھا۔ دیوی کی ممتا کو اس دم کچھ تسلی ہی ہو گئی تھی۔
پس اس مشورہ پر عمل شروع ہوا۔ ہلکی لکڑی کا ایک صندوق بنایا گیا۔ یہ احتیاط کی گئی کہ اس کے اندر پانی نہ جا سکے۔ یہ ذمہ داری سورداس اور دیوی پر ڈالی گئی کہ اس صندوق کو وہ اپنے ہاتھوں سے دریا کہ لہروں کے سپرد کر دیں گے ۔
(جاری ہے)
*الماس ایم اے*
قسط نمبر :- 1
وہ پیدائشی اندھا نہ تھا۔
پانچ سال پہلے اس کی آنکھوں میں موتیا اترا اور ہمیشہ کے لئے نابینا ہو گیا۔ وہ ذات کا برہمن تھا، ہندو مذہب میں یہ سب سے اونچی اور قابل احترام ذات کہی جاتی ہے۔ وہ مذہبی تعلیم کا بڑا ماہر تھا۔ اگرچہ جوان تھا لیکن دور دور سے بڑے بڑے پنڈت اس سے گیتا کے نکتے سمجھنے آتے تھے۔ اس گیان دھیان اور اپنی بے پناہ دولت کی وجہ سے وہ زمین پر قدم نہ رکھتا تھا۔ بھمبور کے علاوہ ارد گرد کے بہت سے مندروں کا وہ گرو پنڈت تھا۔ ان مندروں میں جو نذرانے چڑھتے ان میں آدھا حصہ سورداس کا ہوتا تھا۔
یہ واقعہ اس کی عمر کے پچیسویں سال(25) کا ہے۔ اس وقت تک اس نے شادی نہ کی تھی۔ اور نہ اس کا کوئی ارادہ تھا لیکن نہ جانے اچانک اسے کیا ہوا کہ ایک دن صبح کے وقت جب کہ مندر میں پجاریوں کا ہجوم تھا، اس نے مسکراتے ہوئے اعلان کیا:
"میں بہت جلد شادی کر رہا ہوں ”
"کس سے ؟” اس کے ایک ساتھی پنڈت نے پوچھا۔
"بس دیکھ لینا، پہلے سے نہیں بتاؤں گا۔ ” سور داس ٹال گیا۔
"کوئی بھی ہو مگر اس کی قسمت کھل جائے گی۔ سونے میں پیلی ہو جائے گی” ایک اور ساتھی نے تبصرہ کیا شام ہوتے ہوتے یہ بات پورے بھمبور میں پھیل گئی کہ بڑا پنڈت شادی کر رہا ہے۔ کس سے کر رہا ہے اس کا علم کسی کو نہ تھا۔ مگر اس بارے میں ابھی ابھی گفتگو ضرور ہو رہی تھی۔ لوگوں کو یہ تو معلوم تھا کہ سور داس آج کل مندر آنے والی ایک خوبصورت عورت سے خوب ہنس ہنس کے باتیں کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسی سے شادی کر رہا ہو۔ مگر یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی تھی۔
پھر ایک دن سور داس نے اپنی ہونے والی جیون ساتھی کا نام ظاہر کر دیا۔ لوگ جس کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔ یہ وہی عورت تھی۔ اسے عورت تو نہیں کہہ سکتے کہ ابھی تک اس کی شادی نہ ہوئی تھی مگر بیس سال کی یہ دوشیزہ اس قدر سمجھ دار تھی کہ لوگ نہ صرف اس کی تعریف کرتے بلکہ عزت بھی کرتے تھے، وہ بھمبور کے بڑے مندر میں جہاں کا سورداس بڑا پنڈت تھا، نہ صرف روز آتی بلکہ وہاں گھنٹوں عبادت میں مصروف رہتی۔ اس کے بارے میں لوگوں کا عام خیال تھا کہ اس نے اپنی زندگی عبادت اور مندر کے لیے تج دی ہے اور یہ کہ وہ کبھی شادی نہ کرے گی۔
دوشیزہ بھی ایک پنڈت کی بیٹی تھی۔ اس کا نام تو کسی کو معلوم نہ تھا مگر اپنی عبادت کی وجہ سے وہ لوگوں میں "دیوی” کے نام سے مشہور ہو گئی تھی۔ دیوی اور سورداس کو مندر میں آنے جانے والوں نے اکثر باتیں کرتے دیکھا تھا لیکن وہ ان پر شبہ نہ کرتے تھے بلکہ اسے بھی مذہبی گفتگو کا نام دیتے تھے۔ پھر جب سورداس نے دیوی سے شادی کرنے کا اعلان کیا تو لوگوں کو کچھ زیادہ تعجب نہ ہوا بلکہ انہوں نے اسے سراہا۔
سورداس کی صحت قابل رشک تھی۔ وہ گوری رنگت، مضبوط ہاتھ پیر اور دراز قامت جوان تھا۔ یہ ضرور تھا کہ اس کے چہرے پر نرمی یا مسکراہٹ کے بجائے ایک طرح کی سختی اور کرختگی رہتی تھی۔ لوگ اسے مغرور سمجھتے مگر عزت بھی کرتے تھے۔ غرور کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ لوگوں سے الگ تھلک رہنے کا عادی تھا مگر مذہبی فرائض کی ادائیگی میں بہت پکا تھا اس کی عزت کی یہی وجہ تھی۔
سور داس کی شادی کا اعلان ہو گیا۔ وہ خود کافی مالدار تھا، اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہ تھی، لیکن بھمبور کے ہندو معززین اور مندر کے ساتھیوں نے اس کی شادی کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کر دیا۔ سورداس نے اس پر کوئی تبصرہ نہ کیا اور تیاریاں شروع ہو گئیں۔ انتہائی مغرور اور خودسر ہونے کے باوجود لوگ سورداس کی علمیت کی وجہ سے اس کی قدر کرتے تھے اور اسے خوش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
مگر یہ سورداس کی قسمت تھی یا بد قسمتی کہ شادی سے صرف ایک ہفتہ پہلے اس کی دونوں آنکھوں میں "موتیا” کا ایک ساتھ حملہ ہوا اور تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔ سور داس کی آنکھیں جاتی رہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہو گیا۔ لوگ کہتے تھے۔ یہ سیاہ موتیا کا حملہ تھا جس کا علاج اس دور میں قطعی ناممکن تھا۔ سورداس کے ساتھ ہی حسین دوشیزہ”دیوی” کی دنیا بھی اندھیر ہو گئی۔ شادی کی تاریخ یوں گزر گئی جیسے کسی کو کچھ پتہ ہی نہ تھا۔ اس کے تمام ساتھی اور مندر والے حکیموں کے پاس بھاگ رہے تھے۔ ایسے عالم میں کہاں کی شادی اور کس کی شادی مگر دیوی واقعی”دیوی” نکلی۔ اس نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ جب سب لوگ سور داس کی آنکھوں کی طرف سے مایوس ہو گئے اور معالجوں نے صاف جواب دے دیا تو ایک دن "دیوی” سور داس کے پس پہنچی۔ اس وقت اور بہت سے لوگ سورداس کی ہمدردی اور مزاج پرسی کے لیے آئے ہوئے تھے۔
ایسے موقع اور اس بھری محفل میں "دیوی” نے واضح الفاظ میں کہا:
"میں آپ سب کے سامنے کہہ رہی ہوں کہ عورت صرف ایک بار شادی کرتی ہے۔ میں نے بھگوان داس سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ اگرچہ ان کی آنکھیں نہ رہیں مگر میرا وعدہ اپنی جگہ قائم ہے۔ میں ان سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ اگر بھگوان داس انکار کریں گے تو میں عمر بھر شادی نہ کروں گی اور ایک ودھوا(بیوہ) کی طرح زندگی گزار دوں گی۔ ”
تمام حاضرین نے "دیوی” کے فیصلے پر پہلے تو تعجب کیا پھر اسے سراہا۔
"دیوی” واقعی دیوی ہے۔ ہم بھگوان داس سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ دیوی کے فیصلہ کو عملی جامعہ پہنائیں۔ ”
بھگوان داس کو کیا عذر ہو سکتا تھا۔ ان کے ارمانوں پر تو اوس پڑ گئی تھی۔ دیوی کے اس فیصلے سے ان کے خزاں رسیدہ چمن میں جیسے بہار آ گئی۔ پھر دوسرے ہی دن "دیوی "بھگوان داس سے شادی کر کے اندھے بھگوان داس کی لاٹھی بن گئی۔ بھگوان کا اصل نام یہی تھا مگر آنکھوں کے ضائع ہو جانے کی وجہ سے وہ "سور داس”پکارے جانے لگے تھے۔ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد "دیوی” اور "سورداس” کی زندگی بہت اچھی گزرنے لگی تھی۔ جو دیکھتا تھا حیران رہ جاتا تھا۔ "دیوی” اپنے شوہر کو اس کے اندھے پن کا احساس نہ ہونے دیتی تھی۔ وہ سایہ کی طرح سور داس کے ساتھ رہتی تھی۔ "دیوی ” خود بھی پڑھی لکھی تھی۔ اس لیے وہ سور داس کو کتابیں پڑھ کے سناتی تھی تاکہ سور داس کو لوگوں کے سوالات کے جواب دینے میں دقت نہ ہو۔
سورداس اور دیوی کے تین سال ہنسی خوشی گزرے پھر چوتھے سال ایک بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ دیوی کا پاؤں بھاری ہوا اور ٹھیک نو ماہ بعد اس نے ایک چاند سی بچی کو جنم دیا۔ تمام مندوں میں خوشی منائی گئی، دیوی اور سورداس کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ہندوؤں کے براہمن گھرانے میں پیدا ہونے والی بچی یا بچے کی جنم پتری بنانے کا عام رواج تھا۔ راجہ مہاراجہ کے یہاں تو اس پر سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔
سورداس کوئی راجہ نہ تھا مگر اسے اپنے حلقوں میں راجہ جیسی عزت حاصل تھی۔ چنانچہ اس نے اپنی بچی کی جنم پتری بنانے کی خواہش کی۔ بچی کی پیدائش کے چھٹے دن بھمبور اور قرب و جوار کے تمام جوتشی سور داس کی بیٹی کی جنم پتری تیار کرنے کے لیے سرجوڑ کے بیٹھے۔
اس دن پورا مندر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ سور داس اور دیوی کی سب لوگ عزت کرتے تھے۔ اس لیے انہیں ان کی نومولود بچی کی جنم پتری سے بھی دلچسپی تھی۔ وہ بھی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ اس بچی کو آئندہ زندگی میں کیا کیا واقعات پیش آئیں گے۔ یہی دیکھنے اور سننے کے لیے وہ آج مندر میں جمع ہوئے تھے۔
تمام جوتشی الگ الگ اپنے انداز اور طریقے سے جنم پتری تیار کر رہے تھے۔ وہ ستاروں کی چالوں سے حساب لگا رہے تھے اور ہر دن اور ہر ماہ وسال کے نتیجے کو زائچے کے خانوں میں لکھتے جا رہے تھے۔ بڑا گھمبیر ماحول تھا۔ ہر شخص زائچہ کا نتیجہ سننے کے لیے دم بخود تھا۔ اور ہر ایک کی نظر زائچہ بنانے والے جوتشیوں پر لگی تھی۔
اس وقت ایک جوتشی گھبرا کر چیخ پڑا۔
"ارے یہ کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اور اس نے بو کھلا کے دوسرے جوتشیوں کودیکھا۔ سب جوتشی اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔
"کیا ہوا کوئی خاص بات معلوم ہوئی ہے تمہیں ؟” ایک جوتشی نے اس سے پوچھا۔
"ہاں ہاں ایک بات۔ ایک بری خبر”جوتشی کہتے کہتے چپ ہو گیا۔
بری خبر کی آواز سورداس کے کانوں تک بھی پہنچی۔ اس کی دیوی نے سنا مگر خاموش رہی۔ سورداس بے چین ہو گیا۔ اس نے چیخ کے پوچھا:
"کیا بری خبر ہے میری بیٹی کے بارے میں ؟”
پہلے جوتشی نے کچھ بتانے کے بجائے آہستہ سے کہا۔
"مہاراج سورداس جلدی نہ کیجئے ہمیں پورا حساب لگانے دیجیے ”
اس طرح وہ سور داس کو خاموش کرا کے دوسرے جوتشیوں سے آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا۔ پھر اس نے اپنا حساب لگایا کاغذ دوسرے جوتشیوں کو دکھایا۔ ان لوگوں نے اپنے تیار کئے ہوئے زائچے اور حساب دیکھے اور بڑے بحث و مباحثہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ پہلے جوتشی کی تیار کی ہوئی”جنم پتری” درست ہے۔ اور اس کے حساب و کتاب میں کوئی گڑ بڑ نہیں۔ اس زائچہ کے مطابق سب نے اپنے اپنے زائچہ درست کئے پھر پہلے جوتشی سے کہا کہ وہ نومولود بچی کے اس واقعہ کو بیان کر دے جس نے سب کو پریشان کر دیا ہے۔
"سنئے سور داس اور دیوی جی!” پہلے جوتشی نے واضح الفاظ اور آواز میں کہا۔ "اس نوزائیدہ بچی کی جنم پتری جس پر ہم سب جوتشیوں نے اتفاق کیا ہے وہ صاف صاف بتاتی ہے کہ برہمن ذات کی یہ ہندو بچی جوان ہونے پر ایک مسلمان سے شادی کرے گی۔ ”
اور اس کی آواز میں دوسری آوازیں ملتی چلی گئیں۔
"ہندو لڑکی کی مسلمان سے کیسے شادی ہو سکتی ہے۔ ”
"یہ ناممکن ہے ”
اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ”
"یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے بڑے برہمن اور ایسی پاک باز دیوی کی شادی غیر ذات اور غیر مذہب میں ہو”
"اس سے ہمارا مذہب بھسم ہو جائے گا۔ ”
"ایسی لڑکی کو فوراً ختم کر دینا چاہیے۔ ”
"ہاں اس کا گلہ دبا دیا جائے۔ ”
"اسے دھرم پر قربان کر دینا چاہیے۔ ”
یہ آواز تیز اور شور بڑھتا ہی گیا اور اس میں اس قدر تیزی آ گئی کہ کوئی آواز صاف سنائی نہ دیتی تھی۔ سور داس اور نومولود بچی کی ماں "دیوی” بالکل خاموش تھے حالانکہ ان کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا۔ سورداس کی آنکھیں تو خشک تھیں لیکن”دیوی” کی آنکھوں میں آنسو گرنے کے لیے بے چین نظر آتے تھے۔
آخر سور داس کی گرجدار آواز بلند ہوئی اور ہر طرف سناٹا چھا گیا:
"جوتشی نے جو کہا وہ سب جوتشیوں کا متفقہ فیصلہ ہے۔ اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ ہمارے جوتشی آسمانی دیوتاؤں کے ہم نشیں بلکہ ہمارے لیے دیوتاؤں کے مانند ہیں۔ یہ وہی کہتے ہیں جو بھگوان انہیں بتاتا ہے۔ ان کی زبان بھگوان کی زبان ہے۔ جوتشیوں نے جنم پتری سے یہ بات نکالی ہے کہ جوان ہونے پر یہ بچی جس نے ایک برہمن کے گھر میں جنم لیا۔ اور ایک برہمن پارسادیوی کے شکم سے پیدا ہوئی۔ وہ کسی مسلمان سے شادی کرے گی۔ یہ خبر نہ صرف میرے لیے بلکہ تمام ہندو قوم کے لیے باعث شرم ہے۔ دھرم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور یہ بچی دین دھرم کے لیے منحوس ہے۔ ”
سور داس کے ٹھہر کے سانس لی پھر بولنا شروع کیا:
"اس خبر کے سننے کے ساتھ ہی مجھے اس لڑکی سے جو محبت بحیثیت ایک باپ کے پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔ اور اس کی جگہ نفرت نے لے لی ہے مجھے یقین ہے کہ یہی کیفیت میری بیوی "دیوی” کی بھی ہو گی۔ ”
لوگوں کی تمام نظریں سمٹ کر فوراً دیوی پر جم گئیں۔ دیوی نے جو خود کو لوگوں کی نظروں کے گرداب میں پایا تو اشکبار آنکھوں کے ساتھ سرہلا کر اپنے شوہر کی بات کی تصدیق کی۔
اس وقت لوگوں کی آوازوں کا غلغلہ اٹھا :
"دیوی سور داس کی بات کی تصدیق کر رہی ہیں۔ ”
سور داس نے فوراً بات اگے بڑھائی:
"یہ تو طے ہے کہ اس لڑکی کی پرورش میرے گھر میں نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ایک منحوس لڑکی سے زندہ رہنے کا حق چھین لینا چاہیے۔ مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن ہمارا راجہ بادشاہ آدم جان ہے جو ایک مسلمان ہے۔ اگر ہم نے بچی کا گلہ دبا کر یا کسی اور طرح مار ڈالا اور بات کھل گئی تو ہم سب کی شامت آ جائے گی۔ اس لیے اس سلسلے میں ایسی تدبیر کی جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ”
ایک اور گیانی(دانشور) نے کچھ معقول مشورہ دیا۔ اس نے کہا:
"یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچی کو ایک لکڑی کے صندوق میں ڈال کر دریا میں بہا دیا جائے۔ اب یہ اس کی قسمت کہ زندہ بچے یا ڈوب جائے۔ بہر حال یہ نحوست اور کلنک اس گھر سے نکل جائے گا۔ ”
اس مشورہ کو سب نے پسند کیا ممتا کی ماری "دیوی” کی سسکیاں بھی اک دم رک گئیں شاید اس خیال سے کہ بچی کو صندوق میں ڈالنے کے بہانے سے اس کے زندہ بچ جانے کی ایک امید موہوم کا پہلو نکلتا تھا۔ دیوی کی ممتا کو اس دم کچھ تسلی ہی ہو گئی تھی۔
پس اس مشورہ پر عمل شروع ہوا۔ ہلکی لکڑی کا ایک صندوق بنایا گیا۔ یہ احتیاط کی گئی کہ اس کے اندر پانی نہ جا سکے۔ یہ ذمہ داری سورداس اور دیوی پر ڈالی گئی کہ اس صندوق کو وہ اپنے ہاتھوں سے دریا کہ لہروں کے سپرد کر دیں گے ۔
(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment