Friday, December 7, 2018

جہنم کے خوف سے


یہ واقعہ شام کے شہر دمشق میں ہوا۔ایک نوجوان خوبصورت لڑکی روزانہ اکیلی یونیورسٹی جاتی تھی اسی یونیورسٹی میں اسکا والد ایک ڈپارٹمنٹ کا انچارج تھا۔ایک دن چھٹی کے فورا بعد اچانک بادل گرجنے لگے اور زوردار بارش ہونے لگی ،ہر کوئی جائے پناہ کی تلاش میں دوڑ رہا تھا،سردی کی شدت بڑھنے لگی، آسمان سے گرنے والے اولے لوگوں کے سروں پر برسنے لگے،یہ لڑکی بھی یونیورسٹی سے نکلی اور جائے پناہ کی تلاش میں دوڑنے لگی، اس کا جسم سردی سے کانپ رہا تھالیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ اسے پناہ کہاں ملے گی،جب بارش تیز ہوئی تو اس نے ایک دروازہ بجایا، گھر میں موجود لڑکا باہر نکلا اور اسے اندر لے آیا
اور بارش تھمنے تک اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دی،دونوں کا آپس میں تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ لڑکا بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے جہاں وہ خود زیر تعلیم ہے۔اور اس شہر میں اکیلا رہتا ہے،ایک کمرہ برامدہ اور باتھ روم اس کا کل گھر تھا نوجوان نے اسے کمرے میں آرام کرنے کو کہا اور اسکے پاس ہیٹر رکھ دیا اور کہا کہ کمرہ جب گرم ہو جائے گا تو وہ ہیٹر نکال لے گا،تھوڑی دیر لڑکی بستر پر بیٹھی کانپتی رہی،اچانک اسے نیند آ گئی تو یہ بستر پر گرگئی۔نوجوان ہیٹر لینے کمرے میں داخل ہوا تو اسے یہ بستر پر سوئی ہوئی لڑکی جنت کی حوروں کی سردار لگی وہ ہیٹر لیتے ہی فورا کمرے سے باہر نکل گیالیکن شیطان جو کہ اسے گمراہ کرنے کے موقع کی تلاش میں تھااسے وسوسے دینے لگا اس کے ذہن میں لڑکی کی تصویر خوبصورت بنا کر دکھانے لگاتھوڑی دیر میں لڑکی کی آنکھ کھل گئی، جب اس نے اپنے آپ کو بستر پر لیٹا ہوا پایا تو ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور گھبراہٹ کے عالم میں بے تحاشا باہر کی طرف دوڑنے لگی اس نے برامدے میں اسی نوجوان کو بیہوش پایا وہ انتہائی گھبراہٹ کی عالم میں گھر کی طرف دوڑنے لگی اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا یہاں تک کہ اپنے گھر پہنچ کر باپ کی گود میں سر رکھ دیا جو کہ پوری رات اسے شہر کے ہر کونے میں تلاش کرتا رہا تھااس نے باپ کو تمام واقعات من و عن سنا دیے اور اسے قسم کھا کر کہا کہ میں نہیں جانتی جس عرصہ میں میری آنکھ لگی کیا ہوامیرے ساتھ کیا کیا گیا، کچھ نہیں پتا،اسکا باپ انتہائی غصے کے عالم میں اٹھا اور یونیورسٹی پہنچ گیا اور اس دن غیر حاضر ہونے والے طلبہ کے بارے میں پوچھا تو پتا لگا کہایک لڑکا شہر سے باہر گیا ہے اور ایک بیمار ہے، ہسپتال میں داخل ہے،باپ ہسپتال پہنچ گیا تاکہ اس نوجوان کو تلاش کرے اور اس سے اپنی بیٹی کا انتقام لے،ہسپتال میں اسکی تلاش کے بعد جب اسکے کمرے میں پہنچا تو اسے اس حالت میں پایا کہ اسکی دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پٹیوں سے بندھی ہوئی تھی اس نے ڈاکٹر سے اس مریض کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر نے بتایا جب یہ ہمارے پاس لایا گیا تو اسکے دونوں ہاتھ جلے ہوئے تھے باپ نے نوجوان سے کہاکہ تمہیں اللہ کی قسم ہے!مجھے بتاؤ کہ تمہیں کیا ہوا ہے باپ نے اپنا تعارف نہیں کروایا،وہ بولا ایک لڑکی کل رات بارش سے بچتی ہوئی میرے پاس پناہ لینے کے لیے آئی،میں نے اسے اپنے کمرے میں پناہ تو دے دی لیکن شیطان مجھے اس کے بارے میں پھسلانے لگا تو میں اسکے کمرے میں ہیٹر لینے کے بہانے داخل ہوا، وہ سوئی ہوئی لڑکی مجھے جنت کی حور لگی، میں فورا باہر نکل آیا لیکن شیطان مجھے مسلسل اسکے بارے میں پھسلاتا رہا اور غلط خیالات میرے ذہن میں آتے رہے تو جب بھی شیطان مجھے برائی پر اکساتا میں اپنی انگلی آگ میں جلاتا تاکہ جھنم کی آگ اور اسکے عذاب کو یاد کروں اور اپنے نفس کو برائی سے باز رکھ سکوں یہاں تک کہ میری ساری انگلیاں جل گئی اور میں بے ہوش گیا ،مجھے نہیں پتا کہ میں ہسپتال کیسے پہنچا۔یہ باتیں سن کر باپ بہت حیران ہوا۔ بلند آواز سے چلایا اے لوگو۔۔۔۔۔۔! گواہ رہو میں نے اس پاک سیرت لڑکے سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا ہے سبحان اللہ
یہ ہے اللہ سے ڈرنے والوں کا ذکر،اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس لڑکی کی عزت محفوظ نہ رہ سکتی۔جو بھی لڑکا یا لڑکی ناجائز تعلقات قائم کرتے ہیں یا غیر شرعی دوستیاں یا محبتیں کرتے ہیں تو وہ اپنے اس برے فعل کو چھپانے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ والدین ان کے ان کاموں سے بے خبر رہیں حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ ان کے ہر فعل سے با خبر ہےپھر بھی انکے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا !!ایسا کیوں ہے؟؟کیونکہ والدین نے بچپن سے ان کے دل و دماغ میں اللہ کے خوف کے بجائے اپنا ذاتی خوف،رعب و دبدبہ ،سزا کا ڈر ہی بٹھایا ہے۔اسی لیے آج وہ اللہ سے بے پرواہ ہو کر والدین سے چھپ کر گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔اور ایسے بھی والدین ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت خوف خدا پر کی تو انکی اولاد
نےبھی برائیوں سے اپنے آپ کو باز رکھا۔

مزید اچھی پوسٹیں پڑھنے کے لیے وزٹ کریں ہماری دوسری
ویب سائٹ
👇
http://www.ilmkikehkashan.com


پیاری ماں

بہت عرصہ مجھے اس راز کا پتہ ہی نہ چل سکا کہ ماں کو میرے آنے کی خبر کیسے ہو جاتی ہے۔ میں سکول سے آتا تو دستک دینے سے پہلے دروازہ کھل جاتا۔ کالج سے آتا تو دروازے کے قریب پہنچتے ہی ماں کا خوشی سے دمکتا چہرہ نظر آ جاتا۔
وہ پیار بھری مسکراہٹ سے میرا استقبال کرتی، دعائیں دیتی اور پھر میں صحن میں اینٹوں سے بنے چولہے کے قریب بیٹھ جاتا۔
ماں گرما گرم روٹی بناتی اور میں مزے سے کھاتا ۔
جب میرا پسندیدہ کھانا پکا ہوتا تو ماں کہتی چلو مقابلہ کریں۔
یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہوتا تھا۔
ماں روٹی چنگیر میں رکھتی اور کہتی اب دیکھتے ہیں کہ پہلے میں دوسری روٹی پکاتی ہوں یا تم اسے ختم کرتے ہو۔ ماں کچھ اس طرح روٹی پکاتی ... ادھر آخری نوالہ میرے منہ میں جاتا اور ادھر تازہ تازہ اور گرما گرم روٹی توے سے اتر کر میری پلیٹ میں آجاتی۔
یوں میں تین چار روٹیاں کھا جاتا۔
لیکن مجھے کبھی سمجھ نہ آئی کہ فتح کس کی ہوئی!
ہمارے گھر کے کچھ اصول تھے۔ سب ان پر عمل کرتے تھے۔
ہمیں سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے لاھور میں ایک اخبار میں ملازمت ایسی ملی کہ میں رات گئے گھر آتا تھا۔
ماں کا مگر وہ ہی معمول رہا۔
میں فجر کے وقت بھی اگر گھر آیا تو دروازہ خود کھولنے کی ضرورت کبھی نہ پڑی۔
لیٹ ہو جانے پر کوشش ہوتی تھی کہ میں خاموشی سے دروازہ کھول لوں تاکہ ماں کی نیند خراب نہ ہو لیکن میں ادھر چابی جیب سے نکالتا، ادھر دروازہ کھل جاتا۔
میں ماں سے پوچھتا تھا.... آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں آ گیا ہوں؟
وہ ہنس کے کہتی مجھے تیری خوشبو آ جاتی ہے۔
پھر ایک دن ماں دنیا سے چلی گئی !
ماں کی وفات کے بعد ایک دفعہ میں گھر لیٹ پہنچا، بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑا رہا، پھر ہمت کر کے آہستہ سے دروازہ کھٹکٹایا۔ کچھ دیر انتظار کیا اور جواب نہ ملنے پر دوبارہ دستک دی۔ پھر گلی میں دروازے کے قریب اینٹوں سے بنی دہلیز پر بیٹھ گیا۔
سوچوں میں گم نجانے میں کب تک دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہا اور پتہ نہیں میری آنکھ کب لگی۔ بس اتنا یاد ہے کہ مسجد سےاذان سنائی دی، کچھ دیر بعد سامنے والے گھر سے امّی کی سہیلی نے دروازہ کھولا۔ وہ تڑپ کر باہر آئیں۔
انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی پتر! تیری ماں گلی کی جانب کھلنے والی تمہارے کمرے کی کھڑکی سے گھنٹوں جھانکتی رہتی تھی۔ ادھر تو گلی میں قدم رکھتا تھا اور ادھر وہ بھاگم بھاگ نیچے آ جاتی تھیں۔
وہ بولی پتر تیرے لیٹ آنے، رات گئے کچن میں برتنوں کی آوازوں اور شور کی وجہ سے تیری بھابی بڑی بڑ بڑ کیا کرتی تھی کیونکہ ان کی نیند خراب ہوتی تھی۔
پھر انہوں نے آبدیدہ نظروں سے کھڑکی کی طرف دیکھا اور بولیں "پتر ھن اے کھڑکی کدے نیئں کھلنی"۔
کچھ عرصہ بعد میں لاھور سے اسلام آباد آ گیا جہاں میں گیارہ سال سے مقیم ہوں۔
سال میں ایک دو دفعہ میں لاھور جاتا ہوں۔
میرے کمرے کی وہ کھڑکی اب بھی وہاں موجود ہے۔
لیکن ماں کا وہ مسکراہٹ بھرا چہرہ مجھے کبھی نظر نہیں آیا۔ اللّہ پاک ہر کسی کی ماں کو سلامت رکھے ۔آمین

ماں باپ کے سایہ کی ناقدری مت کر اے نادان
ھوپ بہت کاٹے گی جب شجر کٹ جائےگا..!!
مزید اچھی پوسٹیں پڑھنے کے لیے وزٹ کریں ہماری دوسری ویب سائٹ
👇
http://www.ilmkikehkashan.com

Thursday, November 29, 2018

اصلی چور

ایک بنک ڈکیتی کے دوران ڈکیت نے چیخ کر سب سے کہا
"کوئی بھی ہلے مت۔چپ چاپ زمین پر لیٹ جائیں۔۔رقم لوگوں کی ہے اور جان آپ کی اپنی ہے۔۔۔"
سب چپ چاپ زمین پر لیٹ گئے۔۔۔کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا
اسے کہتے ہیں مائند چینج کانسیپٹ (سوچ بدلنے والا تصور)۔۔۔
ایک خاتون کچھ واہیات انداز میں زمین پر لیٹی ہوئی تھی۔۔ایک ڈاکو اس سے بولا
"تمیز سے لیٹو یہاں ڈکیتی ہو رہی ہے ، ریپ نہیں ہو رہا۔۔۔"
اسے کہتے ہیں "فوکس " بس وہی کام کریں جس کے لیے آپ کو ٹرینڈ کیا گیا ہے۔۔
ڈکیتی کے بعد گھر واپس آئے تو نوجوان ڈکیت( جو کہ ایم بی اے پاس تھا )نے بوڑھے ڈکیٹ ( جو کہ صرف پرائمری پا س تھا )سے کہا "چلو رقم گنتے ہیں۔۔
"تم تو پاگل ہو گئے ہو اتنے زیادہ نوٹ کون گنے۔۔رات کو خبروں میں سن لینا کہ ہم کتنا مال لوٹ کر لائے ہیں۔۔"
اسے کہتے ہیں تجربہ جو کہ آج کل ڈگریوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔۔
جب ڈاکو بنک سے چلے گئے تو منیجر نے سپروائزر سے کہا کہ پولیس کو فون کرو۔۔
سپروائز نے جواب دیا "رک جائیں سر ! پہلے بنک سے ہم دونوں اپنے لیے دس لاکھ ڈالرز نکال لیتے ہیں اور ہاں وہ چالیس لاکھ ڈالرز کا گھپلہ جو ہم نے حالیہ دنوں میں کیا ہے وہ بھی ڈاکووں پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ لوٹ کر لے گئے۔۔" اسے کہتے ہیں وقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا۔۔۔مشکل حالات کو اپنے فائدے کے مطابق استعمال کر لینا۔۔
منیجر ہنس کر بولا۔۔"ہر مہینے ایک ڈکیتی ہونی چاہیے۔۔" اسے کہتے ہیں بوریت ختم کرنا۔۔۔ذاتی مفاد اور خوشی جاب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔۔
اگلے دن اخبارات اور ٹی وی پر خبریں تھیں کہ ڈاکو بنک سے سو ملین ڈالرز لوٹ کر فرار۔۔۔ڈاکووں نے بار بار رقم گنی لیکن پچاس ملین ڈالرز سے زیادہ نہ نکلی۔۔۔بوڑھا ڈاکو غصے میں آ گیا اور چیخا
"ہم نے اسلحہ اٹھایا۔اپنی جانیں رسک پر لگائیں اور پچاس ملین ڈالرز لوٹ سکے اور بنک منیجر نے بیٹھے بیٹھے چند انگلیاں ہلا کر پچاس ملین ڈالرز لوٹ لیا۔۔اس سے پتا چلتا ہے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔۔ ہم کو چور نہیں پڑھا لکھا ہونا چاہیے تھا۔۔"
اسے کہتے ہیں علم کی قیمت سونے کے برابر ہوتی ہے۔۔
بنک منیجر خوش تھا کہ اسٹاک مارکیٹ میں اسے جو نقصان ہو رہا تھا وہ اب ان پیسوں سے پورا ہو گا۔۔اسے کہتے ہیں موقع پرستی۔۔
آخر میں بس ایک سوال۔۔
کون ہے اصل ڈکیت؟

 مزید اچھی پوسٹیں پڑھنے کے لیے وزٹ کریں ہماری دوسری ویب سائٹ 
👇
Http://ShanZargar.blogspot.com

تکبر نے بکھاری بنا دیا

ایک بزرگ نے بیان فرمایا کہ میں نے ایک شخص کو مطاف میں دیکھا کہ اس شان کے ساتھ طواف کر رہا ہے کہ اس کے پیچھے خدام ہیں۔ اس کے لیے راستہ صاف کیاجا رہا ہے۔ دھکوں، مکوں کے ذریعے طواف کرنے والوں کو ہٹایا جا رہا ہے۔ لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر ان کو دیکھ رہے ہیں، میں نے بھی ان صاحب کو غور سے دیکھا۔دل میں خیال آیا کہ یہ تو اظہار بندگی، عجز و انکساری کا مقام ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اس مقام پر پہنچا دے اس کو تو خوب شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنے دل سے دنیا کی حرص، کبر، نخوت، خیالات و تصورات کو نکال کر صرف ایک اللہ کی بڑائی کو دل میں جمانا چاہیے۔ اسی دھیان کے ساتھ اس کے آگے سر کو جھکانا چاہیے۔ یہاں پہنچ کر اپنی شان ظاہر کرنا، اگرچہ ظاہری طور پر ہی ہو، قطعاً مناسب نہیں، بس یہ خیالات آئے اور ختم ہو گئے، وہ صاحب بھی طواف سے فارغ ہو کر چلے گئے۔چند سالوں کے بعد بغداد جانا ہوا، وہاں ایک پل کے کنارہ ایک فقیر پر نظر پڑی جو ہر گزرنے والے سے بھیک مانگتا پھر رہا تھا۔ لوگ اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے اور گزر جاتے۔ میں نے اس فقیر کی طرف غور سے دیکھا تو وہ کہنے لگا۔ ’’کیوں گھور کردیکھ رہے ہو؟‘‘تومیں نے کہا کہ ’’چند سال قبل میں نے ایک امیر شخص کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ طواف کرتے دیکھا تھا، وہ شخص آپ کی شکل کا تھا، اس لیے غور سے دیکھ رہا ہوں۔‘‘تو اس نے کہا کہ ’’وہ امیر شخص میں ہی تھا۔ میں نے اس عبدیت کے مقام پر تکبر کیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سزا دی کہ مجھے مخلوق کے سامنے ذلیل کیا، آج میں دن بھر لوگوں سے بھیک مانگتا ہوں اور ذلیل ہوتا ہوں، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو کبر و نخوت کی بلا سے حفاظت میں رکھے اور میرے انجام بد سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔‘‘یہ تو دنیا کی سزا ہے، آخرت کی سزا تو اس سے بڑی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر کبر ہو وہ دخول جنت سے محروم ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی عجب و کبر پر وعیدیں مذکور ہیں۔ فاعتبر و ایا اولیٰ الابصار۔
 مزید اچھی پوسٹیں پڑھنے کے لیے وزٹ کریں ہماری دوسری ویب سائٹ 
👇
http://ShanZargar.blogspot.com