*سسی پنوں*
*الماس ایم اے*
قسط نمبر :- 2
شام بڑی بھیانک تھی جب سور داس اور دیوی بچی اور صندوق کو لیے ہوئے دریا کے کنارے پہنچے۔ آسمان پر خون رنگ شفق بڑے بھیانک انداز سے پھیلی ہوئی تھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان سے خون کی بارش ہو رہی ہو۔
سورداس نے کرخت لہجے میں حکم دیا:
"دیوی جلدی سے بچی کو صندوق میں لٹا کر لہروں کے حوالے کر دو۔ ”
اس حکم میں کس قدر بے رحمی تھی۔ فضائیں چیخ چیخ کے پوچھ رہی تھیں کہ کیا ایک باپ بھی اس قدر ظالم ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی بچی کو خود اپنے ہاتھ سے موت کے سپرد کر دے۔ اسے دریا میں ڈبو دے۔
یہ سوال فضاؤں نے دنیا والوں سے کیا تھا لیکن وہاں صرف دو دنیا والے سور داس اور دیوی موجود تھے جو مل کے بچی کی زندگی کا خاتمہ کر رہے تھے۔ وہ اس سوال کا کیا جواب دیتے لیکن فضاؤں کے سوال کا جواب فضاؤں ہی کی طرف سے آیا۔
فضاؤں میں سرگوشیاں ہوئیں اور یوں محسوس ہوا جیسے کوئی کہہ رہا ہے :
"ہاں ایک باپ کا بیٹی کے بارے میں ظالم ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی باپ اپنی بیٹیوں پر ایسے ظلم ڈھاتے رہے ہیں۔ طلوع اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں عربوں باپ میں دستور تھا کہ ان کے گھر میں کوئی بیٹی پیدا ہوتی تو وہ اسے زمین میں زندہ گاڑ دیا کرتے تھے تاکہ وہ کسی کو اپنا داماد نہ بناسکیں۔ داماد بنانا ان کے لیے سب سے بڑی گالی تھی، ذلت تھی۔ ”
سور داس نے بھی یہی عمل دہرایا تھا۔ عرب اپنی جھوٹی عزت، وقار اور خود داری کو برقرار رکھنے کے لیے بیٹیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔ سور داس اپنی کمینگی اور اپنے مذہبی تعصب کی بنا پر بیٹی کا خاتمہ کر رہا تھا۔ اس کے لیے بیٹی کا کسی مسلمان سے شادی کرنا اس قدر نفرت انگیز اور باعث ذلت تھا کہ وہ اس ذلت سے بچنے کے لیے بیٹی کو دریا میں غرق کرنے پر تیار ہو گیا تھا۔
سور داس کی آواز سن کے دیوی جیسے خواب سے چونکی اور اس کے ساتھ ہی اس کی ایک ممتا بھری سسکی نکل گئی سور داس نے گرفت کی:
"دیوی تم سور داس کی پتنی ہو۔ ہم بچی کو موت کی نیند سلا دیں گے مگر اس پر ایک مسلمان کا سایہ نہ پڑنے دیں گے۔ ”
ممتا کی سسکی ٹوٹ گئی۔ دیوی نے جلدی سے بچی کو لکڑی کے صندوق میں لٹیا۔ اور صندوق کو دریا کی لہروں میں بہا دیا۔ بچی کی ذرا سی آواز بھی نہ نکلی۔ دیوی اسے دن بھر سینے سے لگائے دودھ پلاتی رہی تھی۔ اس لیے بچی بے خبر سو رہی تھی اور لکڑی کا صندوق ہچکولے کھاتا آگے ہی آگے بڑھتا رہا تھا۔
سور داس اور دیوی صندوق کی لہروں کے سپرد کر کے جا چکے تھے۔ سور داس بڑا مطمئن تھا۔ اس نے اپنے خیال میں اپنے دھرم کا بڑا پالن کیا تھا اور اس نے ایک ہندو لڑکی کو مسلمان کے گھر بیا ہے جانے سے بچا لیا تھا اور اس کوشش میں لڑکی دریا کے سپرد ہو گئی تھی۔
سور داس چین کی نیند سورہا تھا مگر دیوی بے چین تھی۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دل میں ایک کسک تھی۔ ایک ہوک سی اٹھ رہی تھی، اس کا دل بار بار بے چین کر رہا تھا کہ وہ یہاں سے اٹھ کے دریا پر جائے اور دیکھے کے صندوق کہاں ہے۔ کیا عجب کہ صندوق پھر وہیں واپس آ گیا ہو۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہو رہے تھے۔ وہ شوہر سے مختلف تھی۔ اس نے شوہر کا فیصلہ دل سے قبول نہ کیا تھا یا اس نے کسی تعصب کی بنا پر بچی کو لہروں کے سپرد کرنے پر رضامندی ظاہر نہ کی تھی۔ اس نے جو کچھ بھی کیا تھا صرف اپنے شوہر کو خوش کرنے کے لیے کیا تھا۔ اس کا حکم مانا تھا اور نہ وہ سور داس کو اپنی بیٹی کا قاتل سمجھتی تھی اور اسے یہی ایک ٹیس چین نہ لینے دیتی تھی۔
دوسری طرف صندوق بچی کو اپنے سینے میں چھپائے لہروں پر چل رہا تھا۔ پھر لہروں نے صندوق کو کنارے کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اس کی رفتار کم ہو گئی تھی۔ صندوق تمام رات لہروں پر ڈولتا رہا یہاں تک کہ صبح کا دھند لگا نمودار ہوا۔ شبنم آلود خنک ہوا کے جھونکے چلنے لگے۔
کسان اپنے ہل سنبھال کر کھیتوں کی طرف رواں ہوئے اور دھوبیوں نے دریا کا رخ کیا۔ دھوبی گھاٹ پر پہنچ کے وہ اپنے اپنے ٹھکانوں پر کپڑے دھونے لگے۔ کپڑے دھونے کی آواز میں ایک تسلسل سا ہوتا ہے اور اس تسلسل میں ایک نامعلوم قسم کی نغمگی پیدا ہو جاتی ہے جو سننے میں بھلی معلوم ہوتی ہے۔
اس وقت ان دھوبیوں میں سے ایک زور سے چلایا:
"کیا مل گیا کیوں چیخ رہا ہے ؟”
اس نے جواب نہیں دیا تو دو چار دھوبی ہاتھ روک کے اس کے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ چلانے والا دھوبی لکڑی کا ایک چھوٹا سا صندوق پکڑے کھڑا ہے۔
"صندوق کے اندر کیا ہے ؟” ان میں سے ایک نے پوچھا۔
"پتہ نہیں کیا ہے، میں نے ابھی کھول کے نہیں دیکھا۔ ”
اس وقت صندوق کے اندر سے کسی بچے کی آواز ابھری۔
"ارے اس میں تو کوئی بچہ ہے۔ ”
"یونہی اسے لے چلو چودھری کے پاس، وہیں کھولنا اسے۔ ”
مشورہ معقول تھا چار پانچ دھوبی اس چھوٹے سے صندوق کے ساتھ چودھری کے پاس پہنچے، دھوبیوں کے چودھری کا نام محمد تھاکے وہ ادھیڑ عمر کا ایک تنو مند دھوبی تھا۔ نہایت شیریں گفتار اور ملنسار محمد کو اللہ نے سب کچھ دیا تھا مگر وہ اولاد کی دولت سے محروم تھا۔ رات دن میاں بیوی بچے کی دعائیں مانگتے تھے مگر اب تک ان پر اللہ کی نظر نہ ہوئی تھی۔
"کیا ہے اس میں ؟” محمد نے صندوق کو دیکھ کر تعجب سے پوچھا۔
"خود کھول کے دیکھ لو چودھری ہمیں تو پانی میں بہتا ملا ہے۔ "صندوق پانے والے نے جواب دیا۔
محمد چودھری نے صندوق زمین پر رکھ کر اس کا ڈھکنا کھولا تو حیرانی سے چونک پڑا۔
"ارے اس میں تو ایک پیارا سا بچہ ہے۔ ” اس کے منہ سے بیساختہ نکلا۔ پھر اس نے جھٹ سے کپڑے میں لپٹی بچی کو اٹھا لیا۔
"سبحان اللہ کیسی خوبصورت بچی ہے۔ ”
چودھری نے بچی کو ایک کپڑا بچھا کر اس پر لٹا دیا۔
بچی ننھے ننھے ہاتھ پیر مارنے لگی۔ اس کے منہ سے غوں غوں کی آواز نکل رہی تھی۔
چودھری نے ٹھنڈی سانس لے کر تبصرہ کیا۔
"نہ جانے ماں باپ پر کیا مصیبت پڑی کہ اس معصوم کو اپنے سے جدا کر کے دریا کے حوالے کر دیا۔ ”
"مگر اب اس کا بنے گا کیا چودھری! اس کے ماں باپ کو ہم کہاں ڈھونڈیں گے ؟”
صندوق پانے والے نے چودھری سے پوچھا۔
"واہ بنے گا کیا؟” محمد چودھری بڑی حسرت سے بولا۔ یہ اللہ کی دین ہے اس نے مجھے بچی دی ہے اب یہ میری بیٹی ہے اس کی میں پرورش کروں گا۔ ”
محمد چودھری نے اس کا نام رکھا”سسی” یعنی چاند۔ وہ ہنستی کھیلتی بچی واقعی چاند کا ٹکڑا تھی۔ اس طرح محمد چودھری کے گھر سسی پل کر جوان ہوئی۔ اس جگہ ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس داستان "سسی پنوں ” کا تعلق وادی مہران یعنی”سندھ” سے ہے مگر پورے پنجاب میں یہ داستان اس قدر مقبول ہے کہ اسے الگ الگ کئی شعراء نے منظوم کیا ہے۔ مگر اس داستان کو شاعر نے پنجابی زبان میں نظم کیا ہے۔ ان تمام نظموں میں ایک ہی داستان ہے اور سب کی زبان پنجابی کی زبان ہے مگر جناب شیخ ایاز کا سسی پنوں کا متن اور اس پر لکھا گیا تنقیدی مضمون پنجابی میں لکھی جانے والی”سسی پنوں ” کی داستان سے مختلف ہے یہاں تک کہ شیخ ایاز کے کردار اور واقعات بھی مختلف ہیں۔
اس اختلاف پر بحث کرنا یا تنقیدی نظر ڈالنا ایک کہانی نویس کا کام نہیں اس لیے اس بحث سے الگ رہتے ہوئے صرف یہ کہوں گا کہ مجھے شیخ ایاز کے بیان کردہ کردار، واقعات اور دیگر چیزیں حقیقت سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں۔ اسی لیے میں نے اس کہانی کی بنیاد شیخ ایاز کے متن پر رکھی ہے۔ ان اختلافات پر اگر نظر ڈالی جائے تو حقیقت کا فوراً پتہ چل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سسی پنوں کی پنجابی داسان میں "سسی” کو بھمبور کے بادشاہ آدم جان کی بیٹی بتایا گیا ہے اور جوتشیوں کے بچی کو منحوس کہنے پر آدم جان نے اسے دریا کی لہروں کے سپرد کرایا تھا۔ یہ بات زیادہ دل کو نہیں لگتی۔ اس لیے کہ ایک مسلمان بادشاہ جوتشیوں پراس قدر اعتبار نہیں کرتا کہ وہ اپنی معصوم بیٹی کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دے۔ کوئی مسلمان خواہ وہ فقیر ہو یا بادشاہ اپنی اولاد کو دریا سپرد نہیں کر سکتا۔ یہ بات اسلام کے بھی خلاف ہے اور شفقت پدری سے بھی بعید ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن یہ بات عربوں کے دور جاہلیت کی ہے۔ اسلام پھیلتے ہی اس کی سختی سے منادی کرا دی گئی تھی جس پر آج تک عمل ہوتا ہے۔ قتل کسی کا بھی ہو قتل بہر حال قتل ہے۔ کسی کو گولی مارکر، خنجر بھونک کر یا کسی صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دینا۔ یہ سب قتل کی مختلف صورتیں ہیں۔ بھمبور کا بادشاہ آدم جام مسلمان تھا۔ اس سے اس قسم کی حرکت عقل سے بعید معلوم ہوتی ہے۔
اس کے برعکس شیخ ایاز نے "سسی ” کا باپ ایک نابینا برہمن(ہندو) بیان کیا ہے اور سسی کو دریا کے سپرد کرنے کا فیصلہ نابینا برہمن نے اس لیے کیا تھا کہ جنم پتری کے مطابق سسی جوان ہو کر ایک مسلمان سے شادی کرے گی۔ ہندو برہمن مسلمان سے تعصب کی بنا پر یہ بات برداشت نہ کر سکا اور اس نے بچی کو دریا سپرد کرا دیا۔ راقم الحروف نے اس کو بنیاد بنا کر کہانی مرتب کی ہے۔
اسی طرح دونوں "متنوں ” میں کچھ اختلافات ہیں۔ "سسی” نے جس دھوبی کے گھر پرورش پائی اس کا نام”اتا گاذر” پنجابی منظوم داستان میں لکھا گیا ہے۔ جب کہ شیخ ایاز نے اس کا نام محمد چودھری بیان کیا ہے داستان کے آخری حصے میں بھی کچھ اختلافات موجود ہیں۔
"سسی” محمد چودھری کے گھر پل کر جوان ہوئی تو اس کے حسن کا چرچا دور دور تک پھیلا۔ پورا بھمبور اس گلاب کی خوشبو سے مہک اٹھا۔ محمد چودھری بڑے بڑے سرداروں کے کپڑے دھوتا تھا۔ اس کی معقول آمدنی تھی۔ وہ سخی اور دریا دل تھا مہمان نواز ایسا کہ جب تک کوئی مہمان نہ آ جائے چودھری نوالہ نہ توڑتا تھا۔
بھمبور کا شہر تجارتی راستے پر واقع تھا۔ روز کوئی نہ کوئی قافلہ وہاں سے گزرتا اور محمد اس قافلہ سردار کو اپنا مہمان ضرور بناتا تھا۔ اس لیے سسی کے حسن اور لیاقت کی خبر قافلوں کے ذریعہ دور دور تک پہنچتی تھی۔
روایت ہے کہ ایک دن کچ مکران کے راجہ کا چھوٹا شہزادہ "پنوں ” اپنے دوستوں میں بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا کہ کسی دوست نے بھمبور کے چاند کے حسن کا تذکرہ چھیڑا تو نوعمر شہزادے نے "سسی” میں دلچسپی ظاہر کی اور ذکر کرنے والے سے کرید کرید کے "سسی ” کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
دنیائے عشق میں نادیدہ عاشق ہونے کی ایک روایت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ شہزادے نے سسی کے حسن کا ایک پیکر اپنے تصور میں تراشا اور اس پر سوجان سے عاشق ہو گیا۔ اب اس نادیدہ عاشق نے سسی کے فراق میں بے چین ہونا اور تڑپنا شروع کر دیا پھر جب یہ بے چینی زیادہ بڑھتی تو شہزادے نے محبوبہ دلنواز سے ملاقات کا ارادہ کیا۔ سوال یہ تھا کہ بھمبور کیسے جایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اسے اپنا شہر چھوڑنا پڑے گا۔ باپ سے بھی اجازت لینا ہو گی۔ پتہ نہیں وہ اجازت دیں کہ نہ دیں۔
شہزادہ پنوں کے کچھ دن اسی تذبذب میں گزرے۔ ایک دل کہتا پنوں تو کیوں دیوانہ ہوا ہے، پردیس کا معاملہ ہے۔ وہاں نہ کوئی جان نہ پہچان، سسی کی طبیعت کا حال بھی نہیں معلوم کہ وہ کرے گی بھی نہ نہیں۔ دوسرا دل کہتا کہ عشق کے فیصلے دماغ نہیں کرتا عشق تو دیوانگی کا نام ہے اس سمندر میں آنکھیں بند کر کے چھلانگ لگانا پڑتی ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے :
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا بلب بام ابھی
محبوبہ کا خیالی پیکر ہر وقت پنوں کی آنکھوں میں گھومتا رہتا۔ آخر عشق خانہ خراب نے اسے کچھ ایسا بے چین کیا ایک شب بغیر کسی کو بتائے۔ پنوں ایک قافلہ کے ساتھ بھمبور روانہ ہو گیا۔ اسے پیسے کوڑی کی کمی نہ تھی اس لیے حسب ضرورت رقم ساتھ لی اور ایک سوداگر کا بھیس بدل کے قافلے میں شامل ہو گیا۔
عشق نے پنوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا۔ لیکن اپنے کام میں وہ بہت ہوشیار تھا، اسے اندازہ تھا کہ ہر مقام پر پردیسیوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ لوگ مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے اس نے چلنے سے پہلے مشک وغیرہ کافی وزن میں خرید لیا تھا۔ سالار قافلہ سے اس نے یہی کہا تھا کہ وہ خوشبویات کا تاجر ہے اور اپنے ملک میں کافی مشہور ہے۔ پس اس نے بھمبور پہنچتے ہی خبر پھیل گئی کہ دور دیس سے ایک مشک وغیرہ کا تاجر آیا ہے۔ اس کی آمد کی پوری بستی میں خبر پھیل گئی۔ سسی کی اٹھتی جوانی تھی جوان لڑکیوں میں خوشبویات کا عام رواج ہوتا ہے سسی کو خوشبو سے جیسے عشق تھا، وہ اس خبر سے بہت مسرور ہوئی۔
مشہور ہے کہ:
مشک گوئد نہ کہ عطار گوئد
یعنی مشک خود بولتا ہے، عطار کو اس کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بس پنوں کے بارے میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ دور دیس سے ایک مشک وغیرہ کا سوراگر آیا ہے۔ اس کے آنے سے پوری بستی مہک اٹھی ہے۔ سسی بھرپور جوان تھی، جوان ہوتی لڑکیوں کو خوشبو لگانے کا شوق ہوتا ہے پس وہ اس خبر سے بہت مسرور ہوئیں۔
ملک چین میں "ختن” کا علاقہ مشک کے لیے بہت مشہور ہے۔ اس علاقے میں سیاہ رنگ کا ہرن پایا جاتا ہے۔ اس کا نافہ(توندی) میں سرخی مائل سیاہ رنگ کی تھیلی ہوتی ہے۔ مشک ختن دنیا کی سب سے زیادہ اور اعلیٰ خوشبو ہوتی ہے سسی نے بھی اس کا نام سنا تھا اور بے چین ہو گئی تھی۔
"کیوں ری تو نے کبھی مشک دیکھا ہے ؟” سسی نے ایک سہیلی سے پوچھا۔
"دیکھا تو نہیں مگر اس کی خوشبو کی تعریف سنی ہے، کہتے ہیں کہ اس کے نام ہی سے طبعیت مہک جاتی ہے سنا ہے کہ پنوں نام کا ایک سودارگر آیا ہے وہ مشک وغیرہ بیچتا ہے۔
"وہی مشک وغیرہ سسی خوش ہو گئی پھر اسے ضرور دیکھنا چاہیے "سسی نے دلچسپی سے کہا:
"کسے مشک وغیرہ والے کو یا پنوں کو” اور سہیلی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
"بس رہنے بھی دے۔ تجھے توہر وقت شوخی سوجھتی ہے "سسی نے مصنوعی غصہ دکھایا۔
سہیلی نے ادھر ادھر دیکھ کر راز دارانہ انداز اختیار کیا ۔
*الماس ایم اے*
قسط نمبر :- 2
شام بڑی بھیانک تھی جب سور داس اور دیوی بچی اور صندوق کو لیے ہوئے دریا کے کنارے پہنچے۔ آسمان پر خون رنگ شفق بڑے بھیانک انداز سے پھیلی ہوئی تھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان سے خون کی بارش ہو رہی ہو۔
سورداس نے کرخت لہجے میں حکم دیا:
"دیوی جلدی سے بچی کو صندوق میں لٹا کر لہروں کے حوالے کر دو۔ ”
اس حکم میں کس قدر بے رحمی تھی۔ فضائیں چیخ چیخ کے پوچھ رہی تھیں کہ کیا ایک باپ بھی اس قدر ظالم ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی بچی کو خود اپنے ہاتھ سے موت کے سپرد کر دے۔ اسے دریا میں ڈبو دے۔
یہ سوال فضاؤں نے دنیا والوں سے کیا تھا لیکن وہاں صرف دو دنیا والے سور داس اور دیوی موجود تھے جو مل کے بچی کی زندگی کا خاتمہ کر رہے تھے۔ وہ اس سوال کا کیا جواب دیتے لیکن فضاؤں کے سوال کا جواب فضاؤں ہی کی طرف سے آیا۔
فضاؤں میں سرگوشیاں ہوئیں اور یوں محسوس ہوا جیسے کوئی کہہ رہا ہے :
"ہاں ایک باپ کا بیٹی کے بارے میں ظالم ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی باپ اپنی بیٹیوں پر ایسے ظلم ڈھاتے رہے ہیں۔ طلوع اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں عربوں باپ میں دستور تھا کہ ان کے گھر میں کوئی بیٹی پیدا ہوتی تو وہ اسے زمین میں زندہ گاڑ دیا کرتے تھے تاکہ وہ کسی کو اپنا داماد نہ بناسکیں۔ داماد بنانا ان کے لیے سب سے بڑی گالی تھی، ذلت تھی۔ ”
سور داس نے بھی یہی عمل دہرایا تھا۔ عرب اپنی جھوٹی عزت، وقار اور خود داری کو برقرار رکھنے کے لیے بیٹیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔ سور داس اپنی کمینگی اور اپنے مذہبی تعصب کی بنا پر بیٹی کا خاتمہ کر رہا تھا۔ اس کے لیے بیٹی کا کسی مسلمان سے شادی کرنا اس قدر نفرت انگیز اور باعث ذلت تھا کہ وہ اس ذلت سے بچنے کے لیے بیٹی کو دریا میں غرق کرنے پر تیار ہو گیا تھا۔
سور داس کی آواز سن کے دیوی جیسے خواب سے چونکی اور اس کے ساتھ ہی اس کی ایک ممتا بھری سسکی نکل گئی سور داس نے گرفت کی:
"دیوی تم سور داس کی پتنی ہو۔ ہم بچی کو موت کی نیند سلا دیں گے مگر اس پر ایک مسلمان کا سایہ نہ پڑنے دیں گے۔ ”
ممتا کی سسکی ٹوٹ گئی۔ دیوی نے جلدی سے بچی کو لکڑی کے صندوق میں لٹیا۔ اور صندوق کو دریا کی لہروں میں بہا دیا۔ بچی کی ذرا سی آواز بھی نہ نکلی۔ دیوی اسے دن بھر سینے سے لگائے دودھ پلاتی رہی تھی۔ اس لیے بچی بے خبر سو رہی تھی اور لکڑی کا صندوق ہچکولے کھاتا آگے ہی آگے بڑھتا رہا تھا۔
سور داس اور دیوی صندوق کی لہروں کے سپرد کر کے جا چکے تھے۔ سور داس بڑا مطمئن تھا۔ اس نے اپنے خیال میں اپنے دھرم کا بڑا پالن کیا تھا اور اس نے ایک ہندو لڑکی کو مسلمان کے گھر بیا ہے جانے سے بچا لیا تھا اور اس کوشش میں لڑکی دریا کے سپرد ہو گئی تھی۔
سور داس چین کی نیند سورہا تھا مگر دیوی بے چین تھی۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دل میں ایک کسک تھی۔ ایک ہوک سی اٹھ رہی تھی، اس کا دل بار بار بے چین کر رہا تھا کہ وہ یہاں سے اٹھ کے دریا پر جائے اور دیکھے کے صندوق کہاں ہے۔ کیا عجب کہ صندوق پھر وہیں واپس آ گیا ہو۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہو رہے تھے۔ وہ شوہر سے مختلف تھی۔ اس نے شوہر کا فیصلہ دل سے قبول نہ کیا تھا یا اس نے کسی تعصب کی بنا پر بچی کو لہروں کے سپرد کرنے پر رضامندی ظاہر نہ کی تھی۔ اس نے جو کچھ بھی کیا تھا صرف اپنے شوہر کو خوش کرنے کے لیے کیا تھا۔ اس کا حکم مانا تھا اور نہ وہ سور داس کو اپنی بیٹی کا قاتل سمجھتی تھی اور اسے یہی ایک ٹیس چین نہ لینے دیتی تھی۔
دوسری طرف صندوق بچی کو اپنے سینے میں چھپائے لہروں پر چل رہا تھا۔ پھر لہروں نے صندوق کو کنارے کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اس کی رفتار کم ہو گئی تھی۔ صندوق تمام رات لہروں پر ڈولتا رہا یہاں تک کہ صبح کا دھند لگا نمودار ہوا۔ شبنم آلود خنک ہوا کے جھونکے چلنے لگے۔
کسان اپنے ہل سنبھال کر کھیتوں کی طرف رواں ہوئے اور دھوبیوں نے دریا کا رخ کیا۔ دھوبی گھاٹ پر پہنچ کے وہ اپنے اپنے ٹھکانوں پر کپڑے دھونے لگے۔ کپڑے دھونے کی آواز میں ایک تسلسل سا ہوتا ہے اور اس تسلسل میں ایک نامعلوم قسم کی نغمگی پیدا ہو جاتی ہے جو سننے میں بھلی معلوم ہوتی ہے۔
اس وقت ان دھوبیوں میں سے ایک زور سے چلایا:
"کیا مل گیا کیوں چیخ رہا ہے ؟”
اس نے جواب نہیں دیا تو دو چار دھوبی ہاتھ روک کے اس کے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ چلانے والا دھوبی لکڑی کا ایک چھوٹا سا صندوق پکڑے کھڑا ہے۔
"صندوق کے اندر کیا ہے ؟” ان میں سے ایک نے پوچھا۔
"پتہ نہیں کیا ہے، میں نے ابھی کھول کے نہیں دیکھا۔ ”
اس وقت صندوق کے اندر سے کسی بچے کی آواز ابھری۔
"ارے اس میں تو کوئی بچہ ہے۔ ”
"یونہی اسے لے چلو چودھری کے پاس، وہیں کھولنا اسے۔ ”
مشورہ معقول تھا چار پانچ دھوبی اس چھوٹے سے صندوق کے ساتھ چودھری کے پاس پہنچے، دھوبیوں کے چودھری کا نام محمد تھاکے وہ ادھیڑ عمر کا ایک تنو مند دھوبی تھا۔ نہایت شیریں گفتار اور ملنسار محمد کو اللہ نے سب کچھ دیا تھا مگر وہ اولاد کی دولت سے محروم تھا۔ رات دن میاں بیوی بچے کی دعائیں مانگتے تھے مگر اب تک ان پر اللہ کی نظر نہ ہوئی تھی۔
"کیا ہے اس میں ؟” محمد نے صندوق کو دیکھ کر تعجب سے پوچھا۔
"خود کھول کے دیکھ لو چودھری ہمیں تو پانی میں بہتا ملا ہے۔ "صندوق پانے والے نے جواب دیا۔
محمد چودھری نے صندوق زمین پر رکھ کر اس کا ڈھکنا کھولا تو حیرانی سے چونک پڑا۔
"ارے اس میں تو ایک پیارا سا بچہ ہے۔ ” اس کے منہ سے بیساختہ نکلا۔ پھر اس نے جھٹ سے کپڑے میں لپٹی بچی کو اٹھا لیا۔
"سبحان اللہ کیسی خوبصورت بچی ہے۔ ”
چودھری نے بچی کو ایک کپڑا بچھا کر اس پر لٹا دیا۔
بچی ننھے ننھے ہاتھ پیر مارنے لگی۔ اس کے منہ سے غوں غوں کی آواز نکل رہی تھی۔
چودھری نے ٹھنڈی سانس لے کر تبصرہ کیا۔
"نہ جانے ماں باپ پر کیا مصیبت پڑی کہ اس معصوم کو اپنے سے جدا کر کے دریا کے حوالے کر دیا۔ ”
"مگر اب اس کا بنے گا کیا چودھری! اس کے ماں باپ کو ہم کہاں ڈھونڈیں گے ؟”
صندوق پانے والے نے چودھری سے پوچھا۔
"واہ بنے گا کیا؟” محمد چودھری بڑی حسرت سے بولا۔ یہ اللہ کی دین ہے اس نے مجھے بچی دی ہے اب یہ میری بیٹی ہے اس کی میں پرورش کروں گا۔ ”
محمد چودھری نے اس کا نام رکھا”سسی” یعنی چاند۔ وہ ہنستی کھیلتی بچی واقعی چاند کا ٹکڑا تھی۔ اس طرح محمد چودھری کے گھر سسی پل کر جوان ہوئی۔ اس جگہ ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس داستان "سسی پنوں ” کا تعلق وادی مہران یعنی”سندھ” سے ہے مگر پورے پنجاب میں یہ داستان اس قدر مقبول ہے کہ اسے الگ الگ کئی شعراء نے منظوم کیا ہے۔ مگر اس داستان کو شاعر نے پنجابی زبان میں نظم کیا ہے۔ ان تمام نظموں میں ایک ہی داستان ہے اور سب کی زبان پنجابی کی زبان ہے مگر جناب شیخ ایاز کا سسی پنوں کا متن اور اس پر لکھا گیا تنقیدی مضمون پنجابی میں لکھی جانے والی”سسی پنوں ” کی داستان سے مختلف ہے یہاں تک کہ شیخ ایاز کے کردار اور واقعات بھی مختلف ہیں۔
اس اختلاف پر بحث کرنا یا تنقیدی نظر ڈالنا ایک کہانی نویس کا کام نہیں اس لیے اس بحث سے الگ رہتے ہوئے صرف یہ کہوں گا کہ مجھے شیخ ایاز کے بیان کردہ کردار، واقعات اور دیگر چیزیں حقیقت سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں۔ اسی لیے میں نے اس کہانی کی بنیاد شیخ ایاز کے متن پر رکھی ہے۔ ان اختلافات پر اگر نظر ڈالی جائے تو حقیقت کا فوراً پتہ چل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سسی پنوں کی پنجابی داسان میں "سسی” کو بھمبور کے بادشاہ آدم جان کی بیٹی بتایا گیا ہے اور جوتشیوں کے بچی کو منحوس کہنے پر آدم جان نے اسے دریا کی لہروں کے سپرد کرایا تھا۔ یہ بات زیادہ دل کو نہیں لگتی۔ اس لیے کہ ایک مسلمان بادشاہ جوتشیوں پراس قدر اعتبار نہیں کرتا کہ وہ اپنی معصوم بیٹی کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دے۔ کوئی مسلمان خواہ وہ فقیر ہو یا بادشاہ اپنی اولاد کو دریا سپرد نہیں کر سکتا۔ یہ بات اسلام کے بھی خلاف ہے اور شفقت پدری سے بھی بعید ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن یہ بات عربوں کے دور جاہلیت کی ہے۔ اسلام پھیلتے ہی اس کی سختی سے منادی کرا دی گئی تھی جس پر آج تک عمل ہوتا ہے۔ قتل کسی کا بھی ہو قتل بہر حال قتل ہے۔ کسی کو گولی مارکر، خنجر بھونک کر یا کسی صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دینا۔ یہ سب قتل کی مختلف صورتیں ہیں۔ بھمبور کا بادشاہ آدم جام مسلمان تھا۔ اس سے اس قسم کی حرکت عقل سے بعید معلوم ہوتی ہے۔
اس کے برعکس شیخ ایاز نے "سسی ” کا باپ ایک نابینا برہمن(ہندو) بیان کیا ہے اور سسی کو دریا کے سپرد کرنے کا فیصلہ نابینا برہمن نے اس لیے کیا تھا کہ جنم پتری کے مطابق سسی جوان ہو کر ایک مسلمان سے شادی کرے گی۔ ہندو برہمن مسلمان سے تعصب کی بنا پر یہ بات برداشت نہ کر سکا اور اس نے بچی کو دریا سپرد کرا دیا۔ راقم الحروف نے اس کو بنیاد بنا کر کہانی مرتب کی ہے۔
اسی طرح دونوں "متنوں ” میں کچھ اختلافات ہیں۔ "سسی” نے جس دھوبی کے گھر پرورش پائی اس کا نام”اتا گاذر” پنجابی منظوم داستان میں لکھا گیا ہے۔ جب کہ شیخ ایاز نے اس کا نام محمد چودھری بیان کیا ہے داستان کے آخری حصے میں بھی کچھ اختلافات موجود ہیں۔
"سسی” محمد چودھری کے گھر پل کر جوان ہوئی تو اس کے حسن کا چرچا دور دور تک پھیلا۔ پورا بھمبور اس گلاب کی خوشبو سے مہک اٹھا۔ محمد چودھری بڑے بڑے سرداروں کے کپڑے دھوتا تھا۔ اس کی معقول آمدنی تھی۔ وہ سخی اور دریا دل تھا مہمان نواز ایسا کہ جب تک کوئی مہمان نہ آ جائے چودھری نوالہ نہ توڑتا تھا۔
بھمبور کا شہر تجارتی راستے پر واقع تھا۔ روز کوئی نہ کوئی قافلہ وہاں سے گزرتا اور محمد اس قافلہ سردار کو اپنا مہمان ضرور بناتا تھا۔ اس لیے سسی کے حسن اور لیاقت کی خبر قافلوں کے ذریعہ دور دور تک پہنچتی تھی۔
روایت ہے کہ ایک دن کچ مکران کے راجہ کا چھوٹا شہزادہ "پنوں ” اپنے دوستوں میں بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا کہ کسی دوست نے بھمبور کے چاند کے حسن کا تذکرہ چھیڑا تو نوعمر شہزادے نے "سسی” میں دلچسپی ظاہر کی اور ذکر کرنے والے سے کرید کرید کے "سسی ” کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
دنیائے عشق میں نادیدہ عاشق ہونے کی ایک روایت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ شہزادے نے سسی کے حسن کا ایک پیکر اپنے تصور میں تراشا اور اس پر سوجان سے عاشق ہو گیا۔ اب اس نادیدہ عاشق نے سسی کے فراق میں بے چین ہونا اور تڑپنا شروع کر دیا پھر جب یہ بے چینی زیادہ بڑھتی تو شہزادے نے محبوبہ دلنواز سے ملاقات کا ارادہ کیا۔ سوال یہ تھا کہ بھمبور کیسے جایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اسے اپنا شہر چھوڑنا پڑے گا۔ باپ سے بھی اجازت لینا ہو گی۔ پتہ نہیں وہ اجازت دیں کہ نہ دیں۔
شہزادہ پنوں کے کچھ دن اسی تذبذب میں گزرے۔ ایک دل کہتا پنوں تو کیوں دیوانہ ہوا ہے، پردیس کا معاملہ ہے۔ وہاں نہ کوئی جان نہ پہچان، سسی کی طبیعت کا حال بھی نہیں معلوم کہ وہ کرے گی بھی نہ نہیں۔ دوسرا دل کہتا کہ عشق کے فیصلے دماغ نہیں کرتا عشق تو دیوانگی کا نام ہے اس سمندر میں آنکھیں بند کر کے چھلانگ لگانا پڑتی ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے :
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا بلب بام ابھی
محبوبہ کا خیالی پیکر ہر وقت پنوں کی آنکھوں میں گھومتا رہتا۔ آخر عشق خانہ خراب نے اسے کچھ ایسا بے چین کیا ایک شب بغیر کسی کو بتائے۔ پنوں ایک قافلہ کے ساتھ بھمبور روانہ ہو گیا۔ اسے پیسے کوڑی کی کمی نہ تھی اس لیے حسب ضرورت رقم ساتھ لی اور ایک سوداگر کا بھیس بدل کے قافلے میں شامل ہو گیا۔
عشق نے پنوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا۔ لیکن اپنے کام میں وہ بہت ہوشیار تھا، اسے اندازہ تھا کہ ہر مقام پر پردیسیوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ لوگ مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے اس نے چلنے سے پہلے مشک وغیرہ کافی وزن میں خرید لیا تھا۔ سالار قافلہ سے اس نے یہی کہا تھا کہ وہ خوشبویات کا تاجر ہے اور اپنے ملک میں کافی مشہور ہے۔ پس اس نے بھمبور پہنچتے ہی خبر پھیل گئی کہ دور دیس سے ایک مشک وغیرہ کا تاجر آیا ہے۔ اس کی آمد کی پوری بستی میں خبر پھیل گئی۔ سسی کی اٹھتی جوانی تھی جوان لڑکیوں میں خوشبویات کا عام رواج ہوتا ہے سسی کو خوشبو سے جیسے عشق تھا، وہ اس خبر سے بہت مسرور ہوئی۔
مشہور ہے کہ:
مشک گوئد نہ کہ عطار گوئد
یعنی مشک خود بولتا ہے، عطار کو اس کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بس پنوں کے بارے میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ دور دیس سے ایک مشک وغیرہ کا سوراگر آیا ہے۔ اس کے آنے سے پوری بستی مہک اٹھی ہے۔ سسی بھرپور جوان تھی، جوان ہوتی لڑکیوں کو خوشبو لگانے کا شوق ہوتا ہے پس وہ اس خبر سے بہت مسرور ہوئیں۔
ملک چین میں "ختن” کا علاقہ مشک کے لیے بہت مشہور ہے۔ اس علاقے میں سیاہ رنگ کا ہرن پایا جاتا ہے۔ اس کا نافہ(توندی) میں سرخی مائل سیاہ رنگ کی تھیلی ہوتی ہے۔ مشک ختن دنیا کی سب سے زیادہ اور اعلیٰ خوشبو ہوتی ہے سسی نے بھی اس کا نام سنا تھا اور بے چین ہو گئی تھی۔
"کیوں ری تو نے کبھی مشک دیکھا ہے ؟” سسی نے ایک سہیلی سے پوچھا۔
"دیکھا تو نہیں مگر اس کی خوشبو کی تعریف سنی ہے، کہتے ہیں کہ اس کے نام ہی سے طبعیت مہک جاتی ہے سنا ہے کہ پنوں نام کا ایک سودارگر آیا ہے وہ مشک وغیرہ بیچتا ہے۔
"وہی مشک وغیرہ سسی خوش ہو گئی پھر اسے ضرور دیکھنا چاہیے "سسی نے دلچسپی سے کہا:
"کسے مشک وغیرہ والے کو یا پنوں کو” اور سہیلی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
"بس رہنے بھی دے۔ تجھے توہر وقت شوخی سوجھتی ہے "سسی نے مصنوعی غصہ دکھایا۔
سہیلی نے ادھر ادھر دیکھ کر راز دارانہ انداز اختیار کیا ۔
(جاری ہے)
سبق آموز ،
ReplyDeleteمعلوماتی ,
شیخ سعدی کی کہانیاں اور
اسلامی واقعات
سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اچھی اچھی معلومات کے لیے یہاں کلک کریں