Pages

Saturday, November 10, 2018

پیر کامل قسط نمبر -9


پیر کامل
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر -9
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے گاڑی نہر کے پل سے کچھ فاصلے پر کھڑی کردی پھر ڈگی سے ایک بوری اور رسی لی ۔ وہ بوری کو کھینچتے ہوئے اس پل کی طرف بڑھتا رہا ۔ پاس سے گزرنے والے کچھ راہ گیروں نے اسے دیکھا مگر وہ رکے نہیں۔ اوپر پہنچ کر اس نے اپنی شرٹ اتار کر نہر میں پھینک دی ۔ چند لمحوں میں اسکی شرٹ بہتے پانی کے ساتھ غائب ہوچکی تھی ۔ ڈارک بلوکلر کی تنگ جینز میں اس کا لمبا قد اور خوبصورت جسم بہت نمایاں تھا ۔
 اس وقت اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا جسے پڑھنا دوسرے کسی بھی شخص کے لیے ناممکن تھا ۔ اس کی عمر انیس بیس سال ہوگی ، مگر اس کے قدوقامت اور حلیے نے اسکی عمر کو جیسے بڑھا دیا تھا ۔ اس نے رسی پل سے نیچے نہر میں لٹکانی شروع کردی ۔ جب رسی کا سرا پانی میں غائب ہوگیا تو اس نے رسی کا دوسرا سرا بوری کے منہ پر لیپٹ کر سختی سے گرہیں لگانی شروع کردی اور اس وقت تک لگاتا رہا جب تک کوائل ختم نہیں ہوگیا ۔ پھر پانی میں پڑا سرا واپس کچھنچ کر اس نے اندازے سے تین فٹ کے قریب رسی چھوڑی اور اپنے دونوں پیر ساتھ جوڑتے ہوئے اس نے اپنے پیروں کے گرد رسی کو بہت مضبوطی سے دوتین بل دیئے اور گرہ لگا دی ۔ اب اس تین فٹ کے ٹکڑے کے سرے پر بڑی مہارت سے اس نے دو پھندے بنائے پھر اچک کر پل کی منڈیر پر بیٹھ گیا ۔ اپنا دایاں ہاتھ کمرکے پیچھے لے جاتے ہوئے پھندے میں سے گزارا اور پھر بائیں ہاتھ سے کھینچ کر کس دیا ۔ پھر یہ کچھ اس نے بائیں ہاتھ کے ساتھ کیا ۔
 اس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے پشت کے بل خود کو پل کی منڈیر سے نیچے گرا دیا ۔ ایک جھٹکے سے اس کا سر پانی سے ٹکرایا اور کمر تک کا حصہ پانی میں ڈوب گیا ۔ پھر رسی ختم ہوگئی ۔ اب وہ اس طرح لٹکا ہوا تھا کہ اس کے بازو پشت پر بندھے ہوئے تھے اور کمر تک کا دھڑ پانی کے اندر تھا ۔ بوری کا وزن یقینا" اس کے وزن سے زیادہ تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ بوری اس کے ساتھ نیچے نہیں آئی اور وہ اس طرح لٹک گیا ۔ اس نے اپنا سانس روکا ہوا تھا ۔ پانی کے اندر اپنا سر جاتے ہی اس نے آنکھیں بند کرلیں ۔ اس کے پھیپھڑے اب جیسے پھٹنے لگے تھے ۔ اس نے یک دم سانس لینے کی کوشش کی اور پانی منہ اور ناک سے اس کے جسم کے اندر داخل ہونے لگا ۔ وہ اب بری طرح پھڑپھڑا راہا تھا مگر نہ وہ اپنے بازوؤں کو استعمال کرکے خود کو سطح پر لا سکتا تھا اور نہ ہی اپنے جسم کو اٹھا سکتا تھا ۔ اس کے جسم کی پھڑپھڑاہٹ آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھی ۔
 چند لوگوں نے اسے پل سے نیچے گرتے دیکھا اور چیختے ہوئے اس طرف بھاگے ۔ رسی ابھی تک ہل رہی تھی ۔ ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں ۔ پانی کے نیچے ہونے والی حرکت اب دم توڑ گئی تھی ۔ اس کی ٹانگیں اب بالکل بے جان نظر آرہی تھیں ۔ پل پر کھڑے لوگ خوف کے عالم میں اس بے جان وجود کو دیکھ رہے تھے ۔ پل پر موجود ہجوم بڑھ رہا تھا ۔ نیچے پانی میں موجود وجود ابھی بھی ساکت تھا ۔ صرف پانی اسے حرکت دے رہا تھا ۔ کسی پینڈولم کی طرح ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 امامہ ! جلدی سے تیار ہوجاؤ ۔ رابعہ نے اپنی الماری سے اپنا ایک سوٹ نکال کر بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا ۔ کس لئے تیار ہوجاؤں ؟
 بھئی شاپنگ کے لئے جارہے ہیں ، ساتھ چلو ۔ رابعہ نے اسی تیز رفتاری کے ساتھ استری کا پلگ نکالتے ہوئے کہا
 نہیں مجھے کہیں نہیں جانا ۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھوں پر اپنا بازو رکھتے ہوئے کہا ۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔
 کیا مطلب ہے ۔۔۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا ۔۔۔۔۔ تم سے پوچھ کون رہا ہے ۔۔۔۔۔ تمہیں بتا رہے ہیں ۔ رابعہ نے اسی لہجے میں کہا ۔
اور میں نے بتا دیا ہے ، میں کہیں نہیں جا رہی ۔ اس نے آنکھوں سے بازو ہٹائے بغیر کہا ۔
 زینب بھی چل رہی ہے ہمارے ساتھ ، پورا گروپ جارہا ہے ، فلم بھی دیکھیں گے واپسی پر ۔ رابعہ نے پورا پروگرام بتاتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے ایک لحظہ کے لئے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا ۔ زینب بھی جارہی ہے ۔
ہاں ، زینب کوہم راستے سے پک کریں گے ۔ امامہ کسی سوچ میں ڈوب گئی ۔
 تم بہت ڈل ہوتی جارہی ہو امامہ ۔ رابعہ نے قدرے ناراضی کے ساتھ تبصرہ کیا ۔ ہمارے ساتھ کہیں آنا جانا ہی چھوڑ دیا ہے تم نے ، آخر ہوتا کیا جا رہا ہے تمہیں ۔
 کچھ نہیں ، بس میں آج کچھ تھکی ہوئی ہوں ، اس لئے سونا چاہ رہی ہوں ۔ امامہ نے بازو ہٹا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
 تھوڑی دیر بعد جویریہ بھی اندر آگئی اور وہ بھی اسے ساتھ چلنے کے لئے مجبور کرتی رہی ، مگر امامہ کی زبان پر ایک ہی رٹ تھی ۔ نہیں مجھے سونا ہے ، میں بہت تھک گئی ہوں ۔ وہ مجبورا" اسے برا بھلا کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں ۔
 رستے سے انہوں نے زینب کو اس کے گھر سے پک کیا اور زینب کو پک کرتے ہوئے جویریہ کو یاد آیا کہ اس کے بیگ کے اندر اس کا والٹ نہیں ہے ۔ وہ اسے ہاسٹل میں ہی چھوڑ آئی تھی ۔
 واپس ہاسٹل چلتے ہیں ، وہاں سے والٹ لے کر پھر بازار چلیں گے ، جویریہ کے کہنے پر وہ لوگ دوبارہ ہاسٹل چلی آئیں ۔ مگر وہاں آکر انہیں حیرانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کمرے کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا
یہ امامہ کہاں ہے ۔ رابعہ نے حیرانی سے کہا ۔
 پتا نہیں ۔ کمرہ لاک کرکے اس طرح کہاں جاسکتی ہے ۔ وہ تو کہہ رہی تھی کہ اسے سونا ہے ۔ جویریہ نے کہا ۔
 ہاسٹل میں تو کسی کے روم میں نہیں چلی گئی ۔ رابعہ نے خیال ظاہر کیا ۔ وہ دونوں اگلے کئی منٹ ان واقف لڑکیوں کے کمروں میں جاتی رہیں ، جن سے انکی ہیلو ہائے تھی مگر امامہ کا کہیں پتا نہیں تھا ۔
کہیں ہاسٹل سے باہر تو نہیں گئی ۔ رابعہ کو اچانک خیال آیا ۔
آؤ وارڈن سے پوچھ لیتے ہیں ۔ جویریہ نے کہا ۔ وہ دونوں وارڈن کے پاس چلی آئیں ۔
 ہاں ، امامہ ابھی کچھ دیر پہلے باہر گئی ہے ۔ وارڈن نے انکی انکوائری پر بتایا ۔ جویریہ اور رابعہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں ۔
 وہ کہہ رہی تھی شام کو آئے گی ۔ وارڈن نے انہیں مزید بتایا ۔ وہ دونوں وارڈن کے کمرے سے نکل آئیں ۔ یہ گئی کہاں ہے ؟ ہمارے ساتھ تو جانے سے انکار کردیا تھا کہ اسے سونا ہے اور وہ تھکی ہوئی ہے اور اسکی طبعیت خراب ہے ۔ اب وہ اس طرح غائب ہوگئی ہے ۔ رابعہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا ۔
 رات کو وہ قدرے لیٹ واپس آئیں اور جس وقت وہ واپس آئیں امامہ کمرے میں موجود تھی ۔ اس نے مسکراتے ہوئے ان کا استقبال کیا ۔
 لگتا ہے ۔۔۔۔۔ خاصی شاپنگ ہوئی ہے آج ۔ اس نے ان دونوں کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے شاپرز کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
ان دونوں نے اسکی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا ۔ بس شاپرز رکھ کر اسے دیکھنے لگیں ۔
تم کہاں گئی ہوئی تھی ؟ جویریہ نے اس سے پوچھا ۔ امامہ کو جیسے جٹھکا لگا ۔
میں اپنا والٹ لینے واپس آئی تھی تو تم یہاں نہیں تھیں ، کمرہ لاکڈ تھا ۔ جویریہ نے اسی انداز میں کہا
میں تم لوگوں کے پچھے گئی تھی
کیا مطلب ؟ جویریہ نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کہا ۔
 تمہارے نکلنے کے بعد میرا ارادہ بدل گیا ۔ میں یہاں سے زینب کی طرف گئی کیونکہ تم لوگوں کو اسے پک کرنا تھا ۔ مگر اس کے چوکیدار نے بتایا کہ تم لوگ پہلے ہی وہاں سے نکل گئے ہو ۔ پھر میں وہاں سے واپس آگئی، بس رستے میں کچھ کتابیں لی تھیں میں نے ۔ امامہ نے کہا
 دیکھا ۔ تم سے پہلے کہا تھا کہ ہمارے ساتھ چلو مگر اس وقت تم نے فورا" انکار کردیا ، بعد میں بےوقوفوں کی طرح پیچھے چل پڑیں ۔ ہم لوگ تو مشکوک ہوگئے تھے تمہارے بارے میں ۔ رابعہ نے کچھ اطمینان سے ایک شاپر کھولتے ہوئے کہا ۔
 امامہ نے کوئی جواب نہیں دیا ، وہ صرف مسکراتے ہوئے ان دونوں کو دیکھتی رہی ۔ وہ دونوں اب اپنے شاپر کھولتے ہوئے خریدی ہوئی چیزیں اسے دکھا رہی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارا نام کیا ہے ؟
پتا نہیں
ماں باپ نے کیا رکھا تھا ؟
یہ ماں باپ سے پوچھیں ۔ ۔۔۔۔ خاموشی
لوگ کس نام سے پکارتے ہیں تمہیں ؟
لڑکے یا لڑکیاں ؟
لڑکے
بہت سارے نام لیتے ہیں
زیادہ تر کون سا نام پکارتے ہیں
Daredevil
اور لڑکیاں
وہ بھی بہت سے نام لیتی ہیں
زیادہ تر کس نام سے پکارتی ہیں ؟
یہ میں نہیں بتاسکتا ۔ یہ بالکل ذاتی ہے
گہری خاموشی ۔۔۔۔ طویل سانس ۔۔۔۔ پھر خاموشی ۔
میں آپکو ایک مشورہ دوں ؟
کیا ؟
آپ میرے بارے میں وہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جو نہ آپ پہلے جانتے ہیں نہ میں ۔
 آپ کے دائیں طرف ٹیبل پر جو سفید فائل پڑی ہے اس میں میرے بارے میں ساری تفصیل موجود ہے پھر آپ وقت ضائع کیوں کر رہے ہیں
 سائیکوانالسٹ نے اپنے پاس موجود ٹیبل لیمپ کی روشنی میں سامنے کاؤچ پر دراز اس نوجوان کو دیکھا جو اپنے پیر مسلسل ہلا رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر گہرا اطمینان تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سائیکلوانالسٹ کے ساتھ ہونے والی اس ساری گفتگو کو بے کار سمجھ رہا تھا ۔ کمرے میں موجود ٹھنڈک ، خاموشی اور نیم تاریکی نے اسکے اعصاب کو بالکل بھی متاثر نہیں کیا تھا ۔ وہ بات کرتے ہوئے وقتا" فوقتا" کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑا رہا تھا ۔ سائیکو انالسٹ کے لئے سامنے لیٹا ہوا نوجوان عجیب کیس تھا ۔ وہ فوٹو گرافک میموری کا مالک تھا ۔ اس کا آئی کیو لیول 150 کی رینج میں تھا ۔ وہ تھرو آوٹ ، آوٹ اسٹینڈنگ اکیڈمک ریکارڈ رکھتا تھا ۔ وہ گالف میں پریزیڈنٹس گولڈ میڈل تین بار جیت چکا تھا ۔ اور وہ ۔۔۔۔۔ وہ تیسری بار خودکشی کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اس کے پاس آیا تھا ۔ اس کے والدین ہی اسے اس کے پاس لے کر آئے تھے اور وہ بے حد پریشان تھے ۔
 وہ ملک کے چند بہت اچھے خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتا تھا ۔ ایسا خاندان جس کے پاس پیسے کی بھرمار تھی ۔ چار بھائیوں اور ایک بہن کے بعد وہ چوتھے نمبر پر تھا ۔ دو بھائی اور ایک بہن اس سے بڑے تھے ۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے وہ اپنے والدین کا بہت زیادہ چہیتا تھا ۔ اس کے باوجود پچھلے تین سال میں اس نے تین بار خودکشی کی کوشش کی ۔ پہلی دفعہ اس نے سڑک پر بائیک چلاتے ہوئے ون وے کی خلاف ورزی کی اور بائیک سے ہاتھ اٹھا لیے ۔ اس کے پیچھے آنے والے ٹریفک کانسٹیبل نے ایسا کرتے ہوئے اسے دیکھا تھا ۔ خوش قسمتی سے گاڑی سے ٹکرانے کے بعد وہ ہوا میں اچھل کر ایک دوسری گاڑی کی چھت پر گرا اور پھر زمین پر گر گیا ۔۔ اس کے بازو اور ایک ٹانگ میں فریکچرز ہوئے ، تب اس کے والدین کانسٹیبل کے اصرار کے باوجود بھی اسے ایک حادثہ ہی سمجھے ، کیونکہ اس نے اپنے ماں باپ سے یہی کہا تھا کہ وہ غلطی سے ون وے سے ہٹ گیا تھا
 دوسری بار اس نے پورے ایک سال بعد لاہور میں خود کو باندھ کر پانی میں ڈبونے کی کوشش کی ۔ ایک بار پھر اسے بچا لیا گیا ۔ پل پر کھڑے لوگوں نے اسے رسی سمیت باہر کھینچ لیا تھا۔ اس بار اس بات کی گواہی دینے والوں کی تعداد زیادہ تھی کہ اس نے خود اپنے آپ کو پانی میں گرایا تھا مگر اس کے ماں باپ کو ایک بار پھر یقین نہیں آیا ۔ سالار کا بیان یہ تھا کہ کچھ لڑکوں نے اسکی گاڑی کو پل کے پاس روکا اور پھر اسے باندھ کر پانی میں پھینک دیا ۔ جس طرح وہ بندھا ہوا تھا اس سے یوں ہی لگتا تھا کہ واقعی اسے باندھ کر گرایا گیا تھا ۔ پولیس اگلے کئی ہفتے اس کے بتائے ہوئے حلیے کے لڑکوں کو پورے شہر میں تلاش کرتی رہی ۔ سکندر عثمان نے خاص طور پر ایک گارڈ اس کے ساتھ تعینات کردیا تھا جو چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ رہتا تھا ۔
 مگر وہ تیسری بار اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا تھا ۔ خواب آور گولیوں کی ایک بڑی تعداد کو پیس کر اس نے دودھ میں ڈال کر پی لیا تھا ۔ گولیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ معدہ واش کرنے کے باوجود اگلے کئی دن وہ بیمار رہا تھا ۔ اس بار کسی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ۔ اس نے خانساماں کے سامنے وہ گولیاں دودھ میں ڈال کر پی تھیں ۔
 سکندر عثمان اور طیبہ شاکڈ رہ گئے تھے ۔ پچھلے دونوں واقعات بھی انہیں پوری طرح یاد آگئے تھے اور وہ پچھتانے لگے کہ انہوں نے پہلے اسکی بات پر اعتبار کیوں کیا ۔ پورا گھر اس کی وجہ سے پریشان ہوگیا تھا ۔ اس کے بارے میں اسکول ، کالونی اور خاندان ہر جگہ خبریں پھیل رہی تھیں ۔ وہ اس بار اس بار سے انکار نہیں کرسکتا تھا کہ اس نے خود کشی کی کوشش نہیں کی تھی ۔ مگر وہ یہ بتانے پر تیار نہیں تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا ۔ بھائی ، بہن ، ماں یا باپ اس نے کسی کے سوال کا بھی جواب نہیں دیا تھا ۔
 سکندر اے لیولز کے بعد اس کے بڑے دو بھائیوں کی طرح اسے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوانا چاہتے تھے ، وہ جانتے تھے اسے کہیں بھی نہ صرف بڑی آسانی سے ایڈمیشن مل جائے گا بلکہ اسکالرشپ بھی ، لیکن ان کے سارے پلانز جیسے بھک کرکے اڑ گئے تھے ۔
 اور اب وہ اس سائیکوانالسٹ کے سامنے موجود تھا ، جس کے پاس سکندر کے اسے اپنے ایک دوست کے مشورہ پر بھیجا تھا ۔
ٹھیک ہے سالار ۔ بالکل ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں ۔ مرنا کیوں چاہتے ہو تم ؟
سالار نے کندھے اچکائے ۔ آپ سے کس نے کہا میں مرنا چاہتا ہوں
خودکشی کی تین کوششیں کرچکے ہو تم
کوشش کرنے اور مرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے
تینوں دفعہ تم اتفاقا" بچے ہو ورنہ تم نے خود کو مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔
 دیکھیں ۔ جس کو آپ خودکشی کی کوشش کہہ رہے ہیں ، میں اسے خودکشی کی کوشش نہیں سمجھا ، میں صرف دیکھنا چاہتا تھا کہ موت کی تکلیف کیسی ہوتی ہے ۔
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگا جو بڑے پرسکون انداز میں انہیں سمجھانے کی کوشش کررہا تھا ۔
اور موت کی تکلیف تم کیوں محسوس کرنا چاہتےتھے ۔
بس ایسے ہی تجسس سمجھ لیں ۔
سائیکوانالسٹ نے ایک گہرا سانس لے کر اس 1500 آئی کیو لیول والے نوجوان کو دیکھا جو اب چھت کو گھور رہا تھا ۔
تو ایک بار خود کشی کی کوشش سے تمہارا یہ تجسس ختم نہیں ہوا ۔
 اور تب ۔۔۔۔۔ تب میں بے ہوش ہوگیا تھا ۔ اس لئے میں ٹھیک سے کچھ بھی محسوس نہیں کرسکا ۔ دوسری بار بھی ایسا ہی ہوا ۔ تیسری بار بھی اسیا ہی ہوا ۔ وہ مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے بولا ۔
اور اب تم چوتھی بار کوشش کرو گے ؟
یقینا" میں محسوس کرنا چاہتا ہوں کہ درد کی انتہا پر جاکر کیسا لگتا ہے ۔
کیا مطلب ؟
 جیسے خوشی کی انتہا سرور ہوتا ہے ۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خوشی کی اس انتہا کے بعد کیا ہے ۔ اسی طرح درد کی بھی تو کوئی انتہا ہوتی ہوگئی ۔ جس کے بعد آپ کچھ بھی سمجھ نہیں سکتے ، جیسے سرور میں آپ کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے ۔
میں نہیں سمجھ سکا ۔
 فرض کریں آپ ایک بار میں ہیں ۔ بہت تیز میوزک بج رہا ہے ، آپ ڈرنک کررہے ہیں ، آپ نے کچھ ڈرگزبھی لی ہوئی ہیں ، آپ ناچ رہے ہیں پھر آہستہ آہستہ آپ اپنے ہوش و حواس کھو دیتے ہیں ۔ آپ سرور میں ہیں ، کہاں ہیں ؟ کیوں ہیں ؟ کیا کررہے ہیں ؟ آپ کو کچھ بھی پتا نہیں لیکن آپ کو یہ ضرور پتا ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ آپ کو اچھا لگ رہا ہے ۔ میں جب باہر چھٹیاں گزارنے جاتا ہوں تو اپنے کزنز کے ساتھ ایسے بارز میں جاتا ہوں ۔ میرا پرابلم یہ ہے کہ ان کی طرح میں مدہوش نہیں ہوتا ۔ میں نے کبھی خوشی محسوس نہیں کی ۔ مجھے ان چیزوں سے اتنی خوشی نہیں مل پاتی جتنی باقی لوگوں کو ملتی ہے اور یہی چیز مجھے مایوس کرتی ہے ۔ میں نے سوچا کہ اگر سرور کی انتہا پر نہیں پہنچ سکتا تو شاید میں درد کی انتہا پر پر پہنچ سکوں لیکن وہ بھی نہیں ہوسکا ۔ وہ خاصا مایوس نظر آرہا تھا
تم اس طرح کی چیزوں میں وقت ضائع کیوں کرتے ہو ۔ اتنا شاندار اکیڈمک ریکارڈ ہے تمہارا ۔
 سالار نے اس بار انتہائی بیزاری سے جواب دیا ۔ پلیز پلیز اب میری ذہانت کے راگ الاپنا شروع مت کیجئے گا ۔۔ مجھے پتا ہے میں کیا ہوں ۔۔۔۔ تنگ آگیا ہوں میں اپنی تعریفیں سنتے سنتے ، اس کے لہجے میں تلخی تھی ، سائیکوانالسٹ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا ۔
اپنے لئے کوئی گول کیوں نہیں سیٹ کرتے تم ؟
میں نے کیا ہے ؟
کیا
مجھے خودکشی کے ایک اور کوشش کرنی ہے ۔ مکمل اطمینان تھا ۔
کیا تمہیں کوئی ڈپریشن ہے ؟
ناٹ ایٹ آل ۔
تو پھر مرنا کیوں چاہتے ہو ؟ ایک گہرا سانس
 کیا آپ کو ایک بار پھر سے بتانا شروع کروں کہ میں مرنا نہیں چاہتا ۔ میں کچھ اور کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ وہ اکتایا۔
بات گھوم پھر کرپھر وہیں آگئی تھی ۔ سائیکلوانالسٹ کچھ دیر سوچتا رہا ۔
کیا تم یہ سب کسی لڑکی کی وجہ سے کررہے ہیں ؟
سالار نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا ۔ لڑکی کی وجہ سے ؟
 ہاں ۔ کوئی ایسی لڑکی جو تمہیں اچھی لگتی ہو جس سے تم شادی کرنا چاہتے ہو ۔ اس نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور پھر ہنستا ہی گیا ۔
 مائی گاڈ ۔ آپ کا مطلب ہے کہ کسی لڑکی کی محبت کی وجہ سے میں خودکشی ۔۔۔۔ وہ ایک بار پھر بات ادھوری چھوڑ کر ہنسنے لگا ۔ لڑکی کی محبت ۔۔۔۔۔ اور خود کشی ۔ ۔۔۔۔ کیا مذاق ہے ۔
وہ اب اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا ۔
 سائیکوانالسٹ نے اس طرح کے کئی سیشنز اس کے ساتھ کئے تھے اور ہر بار نتیجہ وہی ڈھاک کے وہی تین پات رہا ۔
 آپ اسکو تعلیم کے لئے بیروں ملک بجھوانے کی بجائے یہیں رکھیں اور اس پر بہت زیادہ توجہ دیں ۔ ہوسکتا ہے یہ توجہ حاصل کرنے کے لئے یہ سب کرتا ہو ۔
 اس نے کئی ماہ کے بعد سالار کے ماں باپ کو مشورہ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے باہر بجھوانے کے بجائے اسلام آباد کے ایک ادارے میں ایڈمیشن دلوا دیا گیا ۔ سکندر کو یہ اطمینان تھا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھیں گے تو شاید وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے ۔ سالار نے ان کے فیصلے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس نے ان کے اس فیصلے پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اسے بیرون ملک تعلیم کے لئے بجھوایا جائے گا ۔
 سائیکوانالسٹ کے ساتھ آخری سیشن کے بعد سکندر اسے گھر لے آئے اور انہوں نے طیبہ کے ساتھ مل کر اس سے ایک لمبی چوڑی میٹنگ کی ۔ وہ دونوں اپنے بیڈ روم میں بٹھا کر اسے ان تمام آسائشوں کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ پچھلے کئی سالوں میں اسے فراہم کرتے رہے تھے ۔ انہوں نے اسے ان توقعات کے بارے میں بھی بتایا جو وہ اس سے رکھتے تھے ۔ اسے ان محبت بھرے جذبات سے بھی آگاہ کیا جو وہ اس کے لئے محسوس کرتے تھے ۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ چیونگم چباتا باپ کی بے چینی اور ماں کے آنسو دیکھتا رہا ۔ گفتگو کے آخر میں سکندر نے تقریبا" تنگ آکر اس سے کہا ۔
 تمہیں کس چیز کی کمی ہے ۔ کیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے یا جو تمہیں چاہیے ۔ مجھے بتاؤ سالار سوچ میں پڑگیا
اسپورٹس کار ۔ اگلے لمحے اس نے کہا
 ٹھیک ہے میں تمہیں اسپورٹس کار باہر سے منگوادیتا ہوں مگر دوبارہ ایسی کوئی حرکت مت کرنا جو تم نے کی ہے ۔ اوکے ۔ سکندر عثمان کو کچھ اطمینان ہوا ۔
سالار نے سر ہلا دیا ۔ طیبہ نے ٹشو سے اپنے آنسو صاف کرنے ہوئے جیسے سکون کا سانس لیا ۔
وہ کمرے سے چلا گیا تو سکندر نے سگار سلگاتے ہوئے ان سے کہا
 طیبہ ! تمہیں اس پر بہت توجہ دینی پڑے گی ۔ اپنی ایکٹیوٹیز کچھ کم کرو اور کوشش کرو کہ اس کے ساتھ روزانہ کچھ وقت گزار سکو ۔ طیبہ نے سر ہلادیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 جاری ہے

1 comment: