Pages

Saturday, November 10, 2018

پیر کامل قسط نمبر -7

پیر کامل
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر -7
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ آپا ۔ آپ لاہور کب جائیں گی ؟
 وہ اپنے نوٹس کو دیکھتے ہوئے چونکی۔ سر اٹھا کر اس نے سعد کو دیکھا ۔ وہ سائیکل کی رفتار کو اب بالکل آہستہ کئے اس کے گرد چکر لگا رہا تھا ۔
کل ۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔۔ ؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟ امامہ نے اپنی فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
جب آپ چلی جاتی ہیں تو میں آپ کو بہت مس کرتا ہوں ۔ وہ بولا
کیوں ۔۔۔۔۔ ؟ امامہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔
 کیونکہ آپ مجھے بہت اچھی لتی ہیں اور آپ میرے لئے بہت سے کھلونے لاتی ہیں اور آپ مجھے سیر کروانے لے کر جاتی ہیں ۔ اور آپ میرے ساتھ کھیلتی ہیں اس لئے۔ اس نے تفصیلی جواب دیا ۔
آپ مجھے اپنے ساتھ لاہور نہیں لے جاسکتیں ؟ امامہ اندازہ نہیں کرسکی یہ تجویز تھی یا سوال
 میں کیسے لے جاسکتی ہوں ۔۔۔۔۔ میں تو خود ہاسٹل میں رہتی ہوں ، تم کیسے رہو گئے وہاں ؟ امامہ نے کہا
سعد سائیکل چلاتے ہوئے کچھ سوچنے لگا پھر اس نے کہا ۔ تو پھر آپ جلدی یہاں آیا کریں
 اچھا ۔۔۔۔۔ جلدی آیا کروں گی ۔ امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ تم ایسا کیا کرو مجھ سے فون پر بات کرلیا کرو۔ میں فون کیا کروں گی تمہیں
 ہاں یہ ٹھیک ہے ۔ سعد کو اسکی تجویز پسند آئی ۔ سائیکل کی رفتار میں اضافہ کرتے ہوئے وہ لان کے لمبے لمبے چکر کاٹنے لگا ۔ امامہ بے دھیانی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی
 وہ اسکا بھائی نہیں تھا ۔ دس سالہ سعد پانچ سال پہلے ان کے گھر آیا تھا ، کہاں سے آیا تھا اس بارے میں وہ نہیں جانتی تھی کیونکہ اسے اس بارے میں اس وقت کوئی تجسس نہیں ہوا تھا مگر کیوں لایا گیا تھا ۔ یہ وہ اچھی طرح جانتی تھی ۔ سعد اب دس سال کا تھا اور وہ گھر میں بالکل گھل مل گیا تھا ۔ امامہ سے وہ سب سے زیادہ مانوس تھا ۔ امامہ کو اکثر اس پر ترس آتا ۔ ترس کی وجہ اسکا لاوارث ہونا نہیں تھا۔ ترس کی وجہ اس کا مستقبل تھا۔ اس کے دو چچاؤں اور ایک تایا کے گھر بھی اس وقت اسی طرح کے گود لئے ہوئے بچے پل رہے تھے ۔ وہ ان کے مستقبل پر بھی ترس کھانے پر مجبور تھی ۔
 فائل ہاتھ میں پکڑے سائیکل پر لان میں گھومتے سعد پر نظریں جمائے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ اسی طرح کی بہت سی سوچوں میں الجھ جاتی تھی مگر اس کے پاس کوئی حل نہیں تھا وہ اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 وہ چاروں اس وقت لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا میں موجود تھے۔ ان کی عمریں اٹھارہ ، انیس سال کے لگ بھگ تھیں اور اپنے حلیے سے وہ چاروں اپر کلاس کے لگتے تھے مگر وہاں پر نہ انکی عمر کوئی نمایاں کردینے والی چیز تھی نہ ہی انکی اپر کلاس سے تعلق رکھنے کی امتیازی خصوصیت ۔۔۔۔ کیونکہ وہاں پر ان سے بھی کم عمر لڑکے آتے تھے اور اپر کلاس اس علاقے کے مستقل کسٹمرز مین شامل تھی۔
 چاروں لڑکے ریڈ لائٹ ایریا کی ٹوٹی ہوئی گلیوں سے گزرتے جارہے تھے ۔ تین لڑکے آپس میں باتیں کررہے تھے جبکہ صرف چوتھا قدرے تجسس اور دلچسپی سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پہلی بار وہاں آیا تھا اور ان تینوں کے ساتھ تھوڑی دیر بعد ہونے والی اسکی گفتگو سے یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ وہ واقعی وہاں پہلی بار آیا تھا ۔
 گلی کے دونوں اطراف میں کھلے دروازوں میں بناؤ سنگھار کئے نیم عریاں کپڑوں میں ملبوس ہر عمر اور ہر شکل کی عورت کھڑی تھی ۔ سفید ۔۔۔۔۔ سانولی ۔۔۔۔۔ سیاہ ۔۔۔۔۔ گندمی ۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت ۔۔۔۔۔ درمیانی۔۔۔۔۔۔ اور معمولی شکل و صورت والی ۔
 گلی میں سے ہر شکل اور عمر کا مرد گزر رہا تھا ۔ وہ لڑکا وہاں سے گزرتے ہوئے ہر چیز پر غور کر رہا تھا ۔ تم یہاں کتنی بار آئے ہو ۔ چلتے چلتے اس لڑکے نے اچانک اپنے ساتھ والے لڑکے سے پوچھا
 وہ لڑکا جوابا" ہنسا کتنی بار ۔۔۔۔۔؟ یہ تو پتا نہیں ۔۔۔۔۔ اب تو گنتی بھی بھول چکا ہوں ۔ اکثر آٹا ہوں یہاں پر ۔ اس لڑکے نے قدرے فخریہ انداز میں کہا
ان عورتوں میں مجھے تو کوئی اٹریکشن محسوس نہیں ہورہی
ان میں تو کچھ بھی خاص نہیں ۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
 اگر کہیں رات ہی گزارنی ہو تو کم از کم ماحول تو اچھا ہو ۔ یہ تو بہت گندی جگہ ہے اس نے گلی میں موجود گڑھوں اور کوڑے کے ڈھیروں کو دیکھتے ہوئے کچھ ناگواری سے کہا
 پھر گرل فرینڈز کے ہوتے ہوئے یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس نے اس بار اپنی بھنوئیں اچکاتے ہوئے کہا
 اس جگہ کا اپنا ایک چارم ہے ۔ گرل فرینڈز اور یہاں کی عورتوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ گرل فرینڈز اس طرح کے ڈانس تو نہیں دکھا سکتیں جو ابھی کچھ دیر بعد تم دیکھو گے ۔ تیسرا لڑکا ہنسا۔ اور پھر پاکستان کی جس بڑی ایکٹریس کا ڈانس ہم تمہیں دکھانے لے جارہے ہیں وہ تو بس ۔۔۔۔۔۔
دوسرے لڑکے کی بات کو پہلے لڑکے نے کاٹ دیا ۔ اس کا ڈآنس تو تم پہلے مجھے دکھا چکے ہو ۔
 ارے وہ کچھ بھی نہیں تھا ۔ بھائی کی شادی پر ایک مجرا کیاتھا ۔۔۔۔۔ مگر یہاں پر تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ وہ ایکٹرس تو ایک پوش علاقے میں رہتی ہے پھر یہاں کیوں آتی ہے ۔ پہلے لڑکے نے کچھ غیر مطمئن انداز میں اس سے پوچھا
 یہ تم آج خود اس سے پوچھ لینا میں کبھی اس سے اس طرح کے سوال نہیں کرتا، دوسرے لڑکے کی بات پر باقی دونوں لڑکے ہنسے مگر تیسرا لڑکا اسی طرح چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتا رہا
 ان کا سفر بالآخر اس گلی کے آخر میں ایک عمارت کے سامنے ختم ہوگیا ۔ عمارت کے نیچے موجود دکان سے تینوں لڑکوں نے موتیے کے بہت سے ہار خریدے اور اپنی کلائیوں میں لپیٹ لیے ۔ ایک ہار دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کی کلائی میں بھی لپیٹ دیا جو وہاں آنے پر اعتراض کررہا تھا ۔ پھر ان لوگوں نے وہاں سے پان خریدے۔ تمباکو والا پان دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کو بھی دیا جو شاید زندگی میں پہلی بار پان کھا رہا تھا ۔ پان کھاتے ہوئے وہ چاروں اس عمارتے کی سیڑھیاں چڑھنے لگے ۔ اوپر پہنچ کر پہلے لڑکے نے ایک بار پھر تنقیدی نظروں سے چاروں طرف دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک نمودار ہوئی ۔ وہ جہ بہت صاف ستھری اور خاصی حد تک آراستہ تھی ۔
 گاؤ تکیے اور چاندنیاں بچھی ہوئی تھیں اور باریک پردے لہرا رہے تھے ۔ کچھ لوگ پہلے ہی وہاں موجود تھے ۔ رقص ابھی شروع نہیں ہوا تھا ۔ ایک عورت لپکتی ہوئی انکی طرف آئی ۔ اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مصنوعی مسکراہت سجی ہوئی تھی اس نے دوسرے لڑکے کو مخاطب کیا پہلے لڑکے نے غور سے اس عورت کو دیکھا ۔ ادھیڑ عمر کی وہ عورت اپنے چہرے پر بے تحاشا میک اپ تھوپے اور بالوں میں موتیے اور گلاب کے گجرے لٹکائے ، شیلون کی ایک چنگھاڑتی ہوئی سرخ ساڑھی میں ملبوس تھی ۔ جس کا بلاؤزر اس کے جسم کو چھپانے میں ناکام ہورہا تھا مگر وہ جسم کو چھپانے کے لئے پہنا بھی نہیں گیا تھا۔ ان چاروں کو وہ ایک کونے میں لے گئی اور وہاں اس نے انہیں بٹھادیا ۔
 پہلے لڑکے نے وہاں بیٹھتے ہی منہ میں موجود پان اس اگلدان میں تھوک دیا جو انکے قریب موجود تھا ۔ کیونکہ پان منہ میں ہوتے ہوئے اس سے بات کرنا مشکل ہورہا تھا ۔ پان کا ذائقہ بھی اس کے لئے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھا۔ تینوں لڑکے وہاں بیٹھے مدہم آوازمیں باتیں کرنے لگے جب کہ پہلا لڑکا اس ہال کے چاروں طرف موجود گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے ہوئے لوگوں کو دیکھتا رہا جن میں سے کچھ اپنے سامنے شراب کی بوتلیں اور نوٹوں کی گڈیاں رکھے بیٹھے تھے ۔ ان میں سے اکثریت سفید لٹھے کے کلف لگے کپڑوں میں ملبوس تھی ۔ اس نے عید کے اجتماعات کے علاوہ آج پہلی بار کسی اور جگہ پر سفید لباس پہننے والوں کا اتنا بڑا اجتماع دیکھا تھا۔ خود وہ اپنے ساتھیوں کی طرح سیاہ چینز اور اسی رنگ کی آدھے باروؤں والی ٹی شرٹ میں ملبوس تھا ۔ انکی عمر کے کچھ اور لڑکے بھی وہاں انہی کی طرح جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھے تھوڑی دیر میں ایک اور عورت وہاں آکر ہال کے درمیان میں بیٹھ کر ایک غزل سنانے لگی تھی ۔ اس کے ساتھ کچھ سازندے بھی تھے ۔ وہ غزلیں سنانے اور اپنے اوپر اچھالے ہوئے نوٹ اٹھا کر وہ خاصی خوش اور مطمئن واپس چلی گئی ۔ اور اس کے جانے کے فورا" بعد ہی فلم انڈسٹری ہال میں داخل ہوئی اور ہال میں موجود ہر مرد کی نظر اس سے جیسے چپک کر رہ گئی تھی ۔ اس نے ہال میں باری باری چاروں طرف گھوم کر ہر ایک کو سر کے اشارے سے خوش آمدید کہا تھا ۔
 سازندوں کو اس بار کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑآ تھا ۔ کیسٹ پلیئر پر باری باری چند ہیجان انگیز گانے لگائے گئے تھے جن پر اس عورت نے اپنا رقص پیش کرنا شروع کیا تھا ۔ اور کچھ دیر پہلے کی خاموشی یک دم ختم ہوگئی تھی چاروں طرف موجود مرد اس عورت کو دادو تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شراب نوشی میں مصروف تھے۔ ان میں سے کچھ جو زیادہ جوش میں آرہے تھے وہ اٹھ کر اس ایکٹرس کے ساتھ ڈانس میں مصروف ہوجاتے ۔
 ہال میں واحد شخص جو اپنی جگہ پر کسی حرکت کے بغیر بے تاثر چہرے کے ساتھ بیٹھا تھا وہ وہی لڑکا تھا مگر اس کے باوجود یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس ایکٹریس کے رقص سے خاصا محظوظ ہورہا تھا
 تقریبا دو گھنٹے بعد جب اس ایکٹریس نے اپنا رقص ختم کیا تو وہاں موجود آدھے سے زیادہ مرد انٹا غفیل ہوچکے تھے واپس گھر جانا ان کے لئے زیادہ مسئلہ اس لیے نہیں تھا کہ ان میں سے کوئی بھی گھر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا ۔ وہ سب ہی وہاں رات گزارنے آئے تھے ۔ ان چاروں نے بھی رات وہاں گزاری ۔
 اگلے دن وہاں سے واپسی پر گاڑی میں اس دوسرے لڑکے نے جمائی لیتے ہوئے پہلے لڑکے سے پوچھا جو اس وقت لاپرواہی سے گاڑی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
کیسا رہا یہ تجربہ ؟
اچھا تھا ۔۔۔۔ پہلے لڑکے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔
 بس اچھا تھا ۔۔۔۔ اور کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ تم بھی بس ۔۔۔۔ اس نے قدرے ناراضی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی
 کبھی کبھار جانے کے لئے اچھی جگہ ہے ۔ اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہوں ۔ مگر بہت خاص والی کوئی بات نہیں ہے ۔ میری گرل فرینڈ اس لڑکی سے بہتر ہے جس کے ساتھ میں نے رات گزاری ہے ۔ اس لڑکے نے دو ٹوک انداز میں کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ڈائنگ ٹیبل پر ہاشم مبین کی پوری فیملی موجود تھی ۔ کھانا کھانے ہوئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے ۔ موضوع گفتگو اس وقت امامہ تھی جو اس ویک اینڈ پر بھی اسلام آباد میں موجود تھی ۔
 بابا ۔۔۔۔۔ آپ نے یہ بات نوٹ کی کہ امامہ دن بدن سنجیدہ ہوتی جارہی ہے ۔ وسیم نے قدرے چھیڑنے والے انداز میں امامہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
 ہاں ۔۔ یہ تو میں بھی پچھلے کئی ماہ سے نوٹ کررہا ہوں ۔ ہاشم مبین نے وسیم کی بات پر بیٹی کے چہرے کو غور سے دیکتھے ہوئے کہا ۔
امامہ نے چاولوں کا چمچہ منہ میں رکھتے ہوئے وسیم کو گھورا ۔
کیوں امامہ ۔ کوئی مسئلہ ہے ؟
 بابا یہ بڑی فضول باتیں کرتا ہے اور آپ بھی خوامخواہ اس کی باتوں میں آرہے ہیں ۔ میں اپنی اسٹڈیز کی وجہ سے مصروف اور سنجیدہ ہوں ۔ اب ہر کوئی وسیم کی طرح نکما تو نہیں ہوتا ۔ اس نے اپنے ساتھ بیٹھے وسیم کے کندھے پر کچھ ناراضی سے ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے کہا
 بابا ۔ آپ اندازہ کریں میڈیکل کے شروع کے سالوں میں اس کا یہ حال ہے تو جب یہ ڈاکٹڑ بن جائے گی تو اس کا کیا حال ہوگا ۔ وسیم نے امامہ کی تنبیہ کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔ سالوں گزر جایا کریں گے مس امامہ ہاشم کو مسکراتے ہوئے ۔
 ڈآئنگ ٹیبل پر موجود لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ ان دونوں کے درمیان یہ نوک جھوک ہمیشہ ہی رہتی تھی ۔ بہت کم مواقع ایسے ہوتے تھے جب وہ دونوں اکٹھے ہوں اور انکے درمیان آپس میں جھگڑا نہ ہو ۔ مستقل بنیادوں پر ہوتے رہنے والے ان جھگڑوں کے باوجود امامہ کی سب سے زیادہ دوستی وسیم کے ساتھ ہی تھی ۔ اس کی وجہ شاید انکی اوپر تلے کی پیدائش بھی تھی ۔
 اور آپ تصور کریں کہ ۔۔۔۔ اس بار امامہ نے اسے اپنی بات مکمل کرنے نہیں دی ۔ اس نے اس کے کندھے پر پوری طاقت سے مکا مارا ۔ وسیم پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا ۔
 ہمارے گھر میں ایک ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا کے سوا اور کیا کیا ہوسکتا ہے ۔ آپ اس کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے آپ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ آج کل کے ڈاکٹڑز وارڈ میں مریضوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہونگے ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی شرح اموات کی ایک وجہ ۔۔۔۔۔۔
بابا اس کو منع کریں ۔ امامہ نے بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے ہاشم مبین سے کہا ۔
 وسیم ۔۔۔۔۔ ہاشم نے اپنے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے وسیم کو جھڑکا ۔ وہ بڑی سعادت مندی سے فورا" خاموش ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اس نے پورے لفافے کو گرائنڈر میں خالی کردیا اور پھر اسے بند کرکے چلایا۔ خانساماں اسی وقت اندر آیا ۔
 چھوٹے صاحب لائیں میں آپکی مدد کردوں ۔ وہ اسکی طرف بڑھا مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا ۔ نہیں نہیں میں خود کرلیتا ہوں ۔ تم مجھے دودھ کا ایک گلاس دے دو ۔ اس نے گرائنڈر آف کرتے ہوئے کہا ۔ خانساماں ایک گلاس میں دودھ لے کر اس کے پاس چلا آیا ۔ دودھ کے آدھے گلاس میں اس نے گرائینڈ میں موجود تمام پاؤڈر ڈال دیا اور ایک چمچہ سے اچھی طرح ہلانے لگا پھر ایک ہی سانس میں وہ دودھ پی گیا۔
کھانے میں آج کیا پکایا ہے تم نے ۔ اس نے خانساماں سے پوچھا
خانساماں نے کچھ ڈشز گنوانی شروع کردیں ۔ اس کے چہرے پر کچھ ناگواری ابھری
 میں کھانا نہیں کھاؤں گا ۔ سونے جارہا ہوں ۔ مجھے ڈسٹرب مت کرنا ۔ اس نے سختی سے کہا اور کچن سے نکل گیا ۔
 پیروں میں پہنی ہوئی باٹا کی چپل کو وہ فرش پر تقریبا" گھسیٹ رہا تھا ۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور آنکھیں سرخ تھیں ۔ شرٹ کے چند ایک کے سوا سارے ہی بٹن کھلے ہوئے تھے ۔
 اپنے کمرے میں جاکر اس نے دروازے کو لاک کرلیا اور وہاں موجود جہازی سائز کے میوزک سسٹم کی طرف گیا اور کمرے میں بولٹن کا گانا بلند آواز میں بجنے لگا ۔ وہ ریموٹ لیکر اپنے بیڈ پر آگیا اور اوندھے منہ بے ترتیبی کے عالم میں لیٹ گیا۔
 اس کا ریموٹ والا بایاں ہاتھ بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا اور مسلسل ہل رہا تھا۔ اس کے دونوں پاؤن بھی میوزک کے ساتھ گردش میں تھے ۔
 کمرے میں بیڈ اور اس کے اپنے حلیے کے علاوہ ہر چیز اپنی جگہ پر تھی ۔ کہیں پر کچھ بھی بے ترتیب نہیں تھا ۔ کہیں پر گرد کا ایک ذرہ تک نظر نہیں آرہا تھا ۔ میوزک سسٹم کے پاس موجود دیواری شیلف میں تمام آڈیو اور ویڈیو کیسٹس بڑے اچھے طریقے سے لی ہوئی تھیں ۔ ایک دوسری دیوار میں موجود ریکس پر کتابوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ کونے میں پڑی ہوئی کمپیوٹر ٹیبل سے عیاں تھا کہ اسے استعمال کرنے والا بہت آرگنائزڈ ہے ۔ کمرے کی مختلف دیواروں پر ہالی وڈ کی ایکٹریسز کے پوسٹر لگے ہوئے تھے ۔ باتھ روم کے دروازے اور کمرے کی کھڑکیوں کے شیشوں کو پلے بوائے میگزین سے کاٹی گئی کچھ ماڈلز کی تصویروں سے سجایا گیا تھا۔ کمرے میں پہلی بار داخل ہونے ولا دروازہ کھولتے ہی بہت بری طرح چونکتا کیونکہ بالکل سامنے کھڑکیوں کے شیشوں پر موجود چند لمحوں کے لئے دیکھنے والوں کو تصویریں نہیں بلکہ اصل لڑکیاں نظر آتی تھیں ۔ میوزک سسٹم جس دیوار میں موجود تھا اسی دیوار کے ایک کونے میں دیوار پر ایک الیکٹرک گٹار لٹکایا گیا تھا اور اسی کونے میں اسٹینڈ پر ایک کی بورڈ رکھا ہوا تھا ۔ بیڈ کے سامنے والی دیوار میں بنی کیبنٹ میں ٹی وی موجود تھا ۔ اور اسی کیبنٹ کے مختلف خانوں میں مختلف شیلڈز اور ٹرافیز پڑی ہوئی تھیں۔
 کمرے کا چوتھا کونا بھی خالی نہیں تھا وہاں دیوار پر مختلف ریکٹس لٹکے ہوئے تھے ان میں سے ایک ٹینس کا تھا اور دو اسکواش کے ۔ ان ریکٹس کو دیوار پر لٹکانے سے پہلے نیچے پوسٹر لگائے گئے تھے اور پھر ریکٹس اس طرح لٹکائے گئے تھے کہ یوں لگتا تھا وہ ریکٹس ان کھلاڑیوں نے پکڑے ہوں ٹینس کے ریکٹ کے نیچے گبریلا سباٹینی کا پوسٹر تھا جبکہ اسکواش کے ایک ریکٹ کے نیچے جہانگیرخان کا پوسٹر تھا اور دوسرے کے نیچے روڈنی مارٹن کا ۔
 کمرے میں واحد جگہ جہاں بے ترتیبی تھی وہ ڈبل بیڈ تھا ۔ جس پر وہ لیٹا ہوا تھا ۔ سلک کی بیڈ شیٹ بری طرح سلوٹ زدہ تھی اور اس پر ادھر ادھر چند غیر ملکی میگزین پڑے ہوئے تھے جن میں پلے بوائے نمایاں تھا ۔ بیڈ پر ایک پیپر کٹر اور کاغذ کی کچھ چھوٹی چھوٹی کترنیں بھی پڑی ہوئی تھیں ۔ یقینا" کچھ دیرپہلے وہ ان میگزینز سے تصاویر کاٹ رہا تھا ۔ چیونگمز کے کچھ ریپرز بھی تڑے مڑے بیڈ پر ہی پڑے ہوئے تھے۔ ڈن ہل کا ایک پیکٹ اور لائٹر بھی ایش ٹرے کے ساتھ بیڈ پر ہی پڑا ہوا تھا ۔ جبکہ سلک کی سفید چمک دار بیڈ شیٹ پر کئی جگہ ایسے نشانات تھے جیسے وہاں پر سگریٹ کی راکھ گری ہو ۔ کافی کا ایک خالی مگ بھی بیڈ پر پڑا ہوا تھا اوراس کے پاس ایک ٹائی اور رسٹ واچ بھی تھی ۔ ان سب چیزوں سے کچھ فاصلے پر سرہانے ایک موبائل فون پڑا تھا جس پر یک دم کوئی کال آنے لگی تھی ۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا ہوا وہ نوجوان اب شاید نیند کے عالم میں تھا کیونکہ موبائل کی بیپ پر اس نے سر اٹھائے بغیر اپنا دایاں ہاتھ بیڈ پر ادھر سے ادھر پھیرا مگر موبائل اسکی رسائی سے بہت دور تھا ۔ اس پر مسلسل کال آرہی تھی ۔ کچھ دیر اسی طرح ادھر ادھر ہاتھ پھیرنے کے بعد اسکا ہاتھ ساکت ہوگیا ۔ شاید وہ اب سو چکا تھا ۔ موبائل پر اب بھی کال آرہی تھی ۔ پھر یک دم کسی نے دروازے پر دستک دی اور پھر دستک کی آواز بڑھتی گئی ۔ موبائل پر کال ختم ہوچکی تھی لیکن دروازے پر دستک دینے والے ہاتھ بڑھتے گئے اور وہ بیڈ پر اوندھے منہ بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 جاری ہے

No comments:

Post a Comment