Saturday, November 10, 2018

پیر کامل قسط نمبر4

پیر کامل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر4  
فلومینا فرانسس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے پیکٹ میز پر رکھتے ہوئے ایک نظر ہال میں دوڑائی ، پیپر شروع ہونے میں ابھی دس منٹ باقی تھے اور ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کتابیں ، نوٹس اور نوٹ بکس پکڑے تیزی سے صفحے آگے پیچھے کرتے ان پر آخری نظریں ڈال رہے تھے ۔ انکی جسمانی حرکات سے انکی پریشانی اور اضطراب کا اظہار ہورہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ ایک بہت مانوس سین تھا پھر ان کی نظریں ہال کے تقریبا" درمیان میں بیٹھے سالار پر جا ٹھہریں ۔ پچس اسٹوڈنٹس میں اس وقت وہ واحد اسٹوڈنٹ تھا جو اطمینان سے اپنی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں اسکیل پکڑے آہستہ آہستہ اسے اپنے جوتے پر مارتے ہوئے وہ اطمینان سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ سین بھی نیا نہیں تھا ۔ اپنے سات سالہ کیریئر میں انہوں نے پیپرز کے دوران سالار کو اسی بے فکری اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے پایا تھا ۔ نو بج کر دو منٹ پر انہوں نے سالار کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے تھما دیا ۔ تیس منٹ بعد اسے وہ پیپر ان سے لے لینا تھا ۔ نو بج کر objective paper
 دس منٹ پر انہوں نے سالار کو اپنی کرسی سے کھڑا ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کے کھڑے ہوتے ہی ہال میں اس سے پیچھے موجود تمام اسٹوڈنٹس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ وہ پیپر ہاتھ میں لیے فلومینا فرانسس کی طرف جا رہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ سین بھی نیا نہیں تھا۔ وہ پہلے بھی یہی دیکھتی آئی تھی ۔ تیس منٹ میں حل کیا جانے والا پیپر وہ آٹھ منٹ میں حل کرکے ان کے سر پر کھڑا تھا ۔
 پیپر کو دوبارہ دیکھ لو ۔ انہوں نے یہ جملہ اس سے نہیں کہا ۔ وہ جانتی تھیں کہ اسکا جواب کیا ہوگا۔ میں دیکھ چکا ہوں ۔ وہ اگر اسے ایک بار پھر پیپر دیکھنے پر مجبور کرتی تو وہ ہمیشہ کی طرح پیپر لے جا کر کرسی کے ہتھے پر رکھ دیتا اور بازو لپیٹ کر بیٹھ جاتا ۔ انہیں یاد نہیں تھا کہ کبھی اس نے انکے کہنے پر پیپرز کو دوبارہ چیک کیا ہوا ۔ اور وہ یہ بھی تسلیم کرتی تھیں کہ اسے اس کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔ اس کے پیپر میں کسی ایک بھی غلطی کو ڈھونڈنا بہت مشکل کام تھا
انہوں نے ایک ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہاتھ سے پیپر پکڑ لیا ۔
 تم جانتے ہو سالار ۔ میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا کیا ہے ؟ انہوں نے پیپر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔ کہ میں تمہیں تیس منٹ کا پیپر ۔۔۔۔۔ تیس منٹ کے بعد سبمٹ کرواتے ہوئے دیکھوں وہ انکی بات پر خفیف سے انداز میں مسکرایا ۔ آپ کی یہ خواہش اس صورت میں پوری ہوسکتی ہے میم اگر میں یہ پیپر 150 سال کی عمر میں حل کرنے بیٹھوں
نہیں میرا خیال ہے 150 سال کی عمر میں بھی تم یہ پیپر دس منٹ میں کردو گے ۔
 اس بار وہ ہنسا اور واپس مڑگیا ۔ فلومینا نے ایک نظر اسکے پیپر کے صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ ایک سرسری سی نظر بھی انہیں یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ وہ اس پیپر میں کتنے نمبر گنوائے گا ۔۔۔۔۔ زیرو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 سلمیٰ نے اپنی بیٹی کے ہاتھوں میں گفٹ پیپر میں لپٹے ہوئے پیکٹ کو حیرانی سے دیکھا ۔ یہ کیا ہے امامہ؟ تم تو مارکیٹ گئی تھی ۔ شاید کچھ کتابیں لینی تھیں تمہیں ۔
ہاں امی مجھے کتابیں ہی لینی تھیں ۔ مگر کسی کو تحفے میں دینے کے لیے ۔
کس کو تحفہ دینا ہے
 وہ لاہور میں ایک دوست ہے میری ۔ اسکی سالگرہ ہے اسکی کے لیے خریدا ہے ۔ کوریئر سروس کے ذریعے بھجوادوں گی کیونکہ مجھے تو ابھی یہاں رہنا ہے ۔
لاؤ پھر مجھے دے دو یہ پیکٹ ۔ میں وسیم کو دوں گی وہ بجھوا دے گا
 نہیں امی ۔ میں ابھی نہیں بھجواؤں گی ۔ ابھی اسکی سالگرہ کی تاریخ نہیں آئی ۔ سلمیٰ کو لگا جیسے وہ یک دم گھبرا گئی ہو ۔ انہیں حیرانی ہوئی ۔ کیا یہ گھبرانے والی بات تھی ؟
 تین سال پہلے امامہ کی وجہ سے انہیں اور انکے شوہر ہاشم کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ وہ تب سے اپنی بیٹی کے بارے میں بہت فکرمند تھیں اور ہاشم اس سے بھی زیادہ ۔ مگر پچھلے تین سال میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا ۔ وہ دونوں اب اسکی طرف سے مکمل طور پر مطمئن تھے ۔ خاص طور پر اسجد سے اسکی نسبت طے کرکے ۔ وہ جانتی تھیں امامہ اسجد کو پسند کرتی ہے اور صرف وہی نہیں اسجد کو کوئی بھی پسند کرسکتا تھا ۔ وہ ہر لحاظ سے ایک اچھا لڑکا تھا ۔ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ اسجد سے نسبت طے ہونے پر بہت خوش ہوئی تھی ۔ اسجد اور اسکے درمیان پہلے بھی خاصی دوستی اور بے تکلفی تھی مگر بعض دفعہ انہیں لگتا جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بہت چپ ہوتی جارہی ہے ۔ وہ پہلے ایسی نہیں تھی۔
 مگر اب وہ اسکول جانے والی بچی بھی تو نہیں رہی ۔ میڈیکل کالج کی اسٹوڈنٹ ہے ۔ پھر وقت بھی کہاںہ وتا ہے اس کے پاس ۔ ۔۔۔ سلمیٰ ہمیشہ خود کو تسلی دے لییتیں ۔
 وہ انکی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ بڑی دونوں بیٹیوں کی وجہ شادی کرچکی تھیں ۔ جب کہ دو بیٹے اور امامہ غیر شادی شدہ تھے ۔
 اچھا ہی ہے کہ یہ سنجیدہ ہوتی جارہی ہے ۔ لڑکیوں کے لیے سنجیدگی اچھی ہوتی ہے ۔ انہیں جتنی جلدی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے ۔ سلمیٰ نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے امامہ سے نظریں ہٹا لیں ۔ وہ چھٹیوں میں گھر آئی ہوئی تھی اور جتنے دن وہ یہاں رہتی انکی نظریں اس پر اسی طرح مرکوز رہتیں
 پتا نہیں یہ ساجد کہاں رہ گیا ہے ۔ جو بھی کام اس کے ذمے لگاؤ بس بھول ہی جاؤ ۔ انہیں اچانک انہیں ملازم کا خیال آیا ۔ جس کے پیچھے وہ لاؤنج میں آئی تھیں ۔ بڑبڑاتے ہوئے وہ لاؤنج سے نکل گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 یہ نیو ایئر نائٹ تھی ۔ نیا سال شروع ہونے میں تیس منٹ باقی تھے ۔ دس لڑکوں پر مشتمل چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کا وہ گروپ پچھلے دو گھنٹے سے اپنے اپنے موٹرسائیکلز پر شہر کی مختلف سڑکوں پر اپنے کرتب دکھانے میں مصروف تھا ۔ ان میں چند نے اپنے ماتھے پر چمکدار بینڈز باندھے ہوئے تھے جن پر نئے سال کے حوالے سے مختلف پیغامات درج تھے ۔ وہ لوگ ایک گھنٹہ پہلے پوش علاقے کی ایک بڑی سپر مارکیٹ میں موجود تھے اور وہاں وہ مختلف لڑکیوں پر آوازیں کستے رہتے تھے ۔
 اپنی بائیکس پر سوار اب وہ مختلف سڑکوں پر چکر لگا رہے تھے ۔ ان کے پاس فائر کریکرز موجود تھے جنہیں وہ وقتا" فوقتا" چلا رہے تھے ۔ پونے بارہ بجے وہ جم خانہ کے باہر موجود تھے جہاں پارکنگ لاٹ گاڑیوں سے بھر چکا تھا ۔ یہ گاڑیاں ان لوگوں کی تھیں جو جم خانے میں نئے سال کے سلسلے میں ہونے والی ایک پارٹی میں آئے تھے ۔ ان لڑکوں کے پاس بھی اس پرٹی کے دعوتی کارڈ موجود تھے کیونکہ ان میں سے تقریبا" تمام کے والدین جم خانہ کے ممبر تھے
 وہ لڑکے اندر پہنچے تو گیارہ بج کر پچپن منٹ ہورہے تھے ۔ چند منٹوں بعد ڈانس فلور سمیت تمام جگہوں کی لائٹس آف ہوجانی تھیں ۔ اور اس کے بعد باہر لان میں آتش بازی کے ایک مظاہرہ کے ساتھ نیا سال شروع ہونے پر لائٹس آن ہونا تھیں ۔ اور اسکے بعد تقریبا" تمام رات وہاں رقص کے ساتھ ساتھ شراب پی جاتی ۔ جس کا اہتمام نئے سال کی اس تقریب کے لئے جم خانہ کی انتظامیہ خاص طور پر کرتی تھی۔ لائٹس آف ہونے ہی وہاں ایک طوفان بدتمیزی کا آغاز ہوجاتا تھا ۔ اور وہاں موجود لوگ اسی طوفان بدتمیزی کے لئے وہاں آئے تھے
 پندرہ سالہ وہ لڑکا بھی دس لڑکوں کے اس گروپ کے ساتھ آنے کے بعد اس وقت ڈانس فلور پر راک بیٹ پر ڈانس کررہا تھا ۔ ڈانس میں اسکی مہارت قابل دید تھی
 بارہ بجنے میں دس سیکنڈ رہ جانے پر لائٹس آف ہوگئیں اور ٹھیک بارہ بجے لائٹس دوبارہ آن کردی گئی ۔
 اندھیرے کے بعد سیکنڈر گننے والوں کی آوازیں اب شور اور خوشی کے قہقہوں اور چیخوں میں بدل گئی تھیں ۔ چند لمحے پہلے تھم جانے والا میوزک ایک بار پھر بجایا جانے لگا ۔ وہ لڑکا اب اپنے دوستوں کے ساتھ باہر پارکنگ لاٹ میں آگیا جہاں بہت سے لڑکے اپنی اپنی گاڑیوں کے ہارن بجا رہے تھے ۔ ان ہی لڑکوں کے ساتھ بیئر کے کین پکڑے وہ وہاں موجود ایک گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا ۔ اس لڑکے نے گاڑی کی چھت پر کھڑے کھڑے اپنی جیکٹ کی جیب سے بیئر کا ایک بھرا ہوا کین نکالا اور پوری طاقت سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک گاڑی کی ونڈ اسکرین پر دے مارا ۔ ایک دھماکے کے ساتھ گاڑی کی ونڈ اسکرین چور چور ہوگئی ۔ وہ لڑکا اطمینان کے ساتھ اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا کین پیتا رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 (جاری ہے )

1 comment: