*سسی پنوں*
*الماس ایم اے*
قسط نمبر :- 3
اری میں نے سنا ہے کہ مشک کا سوداگر ایسا خوبصورت ہے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔
"مجھے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں مشک ضرور دیکھنا چاہتی ہوں۔ ” سسی نے پوری دلچسپی سے کہا۔
"اس میں مشکل ہی کیا ہے۔ سہیلی چھیڑ خانی کے انداز میں بولی۔ توبی۔ تم میرے ساتھ چلو مشک بھی دیکھ لینا اور مشک والے پنوں کو بھی۔ ”
"چل ٹھیک ہے میں چلوں گی تیرے ساتھ۔ "سسی رضامند ہو گئی۔ "مگر یہ سن لے کہ میں مشک دیکھنے نہییں بلکہ خریدنے جاؤں گی۔ ”
"ہاں بھئی تم مشک خرید سکتی ہو تمہیں اللہ نے پیسہ دیا ہے۔ سہیلی نے افسردگی سے کہا:
سنا ہے کہ مشک بہت قیمتی ہوتی ہے۔ اللہ مجھے پیسہ دے تو میں بھی تھوڑی سی خرید لوں۔ ”
"دل نہ چھوٹا کر دلاری۔ سسی نے اسے تسلی دی۔ میں جتنی مشک خریدوں گی اس میں آدھی مشک تم لے لینا۔ اب تو خوش ہو جاؤ۔ ”
دلاری صرف خوش ہی نہیں بلکہ اس سے سسی کو بڑی محبت سے گلے لگا لیا۔
سسی کو واقعی روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ محمد چودھری جو کچھ کماتا تھا اس میں سے کچھ مہمان نوازی پر خرچ کرتا باقی سسی کے حوالے کر دیتا۔ اسے سے سسی کا ہاتھ خوب کھلا ہوا تھا، وہ خوب اللے تللے کرتے تھی، محمد چودھری اس کا ہاتھ کبھی نہ روکتا بلکہ حوصلہ افزائی کرتا تھا اس کے آگے پیچھے اور تھا ہی کون، ایک بوڑھی عورت تھی جس نے اپنا خون دے کر ننھی سی جان کو جوانی تک پالا تھا۔
دلاری دوسرے ہی دن مشک وغیرہ کے مسافر کا پتہ ٹھکانہ معلوم کر کے آ گئی۔
"چل سسی میں سب کچھ معلوم کر آئی ہوں۔ ” دلاری نے آتے ہی کہا۔
سسی نے اسے حیران نظروں سے دیکھا۔ "کہاں چلوں کیا معلوم کر کے آئی ہے تو؟”
"اری کل بات نہیں ہوئی تھی”دلاری بے تکلفی سے بولی۔ وہ سوداگر سرائے میں ٹھہرا ہوا ہے پوری سرائے میں خوشبو کے جھونکے چل رہے ہیں۔
اچھا وہ مشک و منبر کا سوداگر پنوں۔ سسی نے دلچسپی ظاہر کی۔ "کیسا ہے وہ؟ دلاری تنک کر بولی
کان کھول کے سن لے سسی۔ میری شادی ہونے والی ہے میرا مرد لاکھوں میں ایک ہے میں کیوں دیکھوں کون کیسا ہے ؟
پھر ذرا رک کے بولی:
"اگر تجھے پسند آ جائے تو کچھ بات چلاؤں ”
"خدا غارت کرے تجھے کیوں مجھے بدنام کر دے گی۔ ” سسی بگڑ گئی۔ "کسی نے سن لیا تو آفت آ جائے گی۔ ”
ہوں آفت آ جائے گی تجھے شادی نہیں کرنا ہے کیا؟” دلاری نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔
دلاری نے کوئی جواب نہ دیا۔
"چپ کیوں ہے جواب کیوں نہیں دیتی؟”
"کا ہے کا جواب دوں، کیا جواب دوں ؟”
"یہی کہ کیا تجھے شادی نہیں کرنی ہے۔ ”
"کرنی ہے مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟”
"اگر شادی کرنی ہے تو پھر اگر مگر۔ پنوں اچھا جوان ہے اگر تجھے پسند ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟”
پھر دلاری نے خود ہی تعارف کرایا
"میرا نام دلاری ہے "دلاری نے بے تکلف بتایا۔
پنوں نے چونک کے نظریں اوپر اٹھائیں۔
دلاری نے پھر بولنا شروع کیا:
"میرا نام دلاری ہے اور یہ میری سہیلی، اس کا نام سسی ہے۔ ”
سسی کے نام پر پنوں اپنی جگہ اٹھ کے کھڑا ہو گیا۔
"یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سسی ہیں۔ محمد چودھری کی بیٹی؟” پنوں نے ہکلاتے ہوئے کہا اور اس کی نظریں سسی کے سراپا پر اٹک کے رہ گئیں۔ ” یہ شاید محمد چودھری کی بیٹی ہیں ؟”
دوسری طرف دلاری اور سسی کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ دلاری نے قدرے سخت لہجے میں کہ:
"ہم جانتے ہیں کہ تم پنوں ہو۔ مشک بیچنے والے مگر تم مشک بیچتے ہو کہ دوسرں کے باپ دادا کا نام پوچھنے والے ہو؟”
پنوں نے لاپروائی سے دلاری کو دیکھا پھر اس کی نظریں سسی پر اٹک کے رہ گئیں۔ دلاری کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس نے گھور کے "سسی” کو دیکھا مگر وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئیں کیونکہ سسی کی نظریں اک دم پنوں کے چہرے پر اٹک کے رہ گئیں تھیں۔
دلاری نے سسی کو تو اس کے حال پر چھوڑا اور پنوں پر برس پڑی:
"او سوداگر زادے تم مشک بیچتے ہو کہ کنواری لڑکیوں کو تاکتے پھرتے ہو؟”
دلاری کا لہجہ اس قدر کرخت تھا کہ "پنوں "سہم گیا۔ اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر اس نے دیکھا کہ خود سسی کی نظریں "پنوں ” کے سراپا کا جائزہ لے رہی ہیں۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بہانہ کرے۔ آخر اسے کہنا ہی پڑا:
"سسی ہوش میں آؤ کہاں کھو گئی ہو؟”
دلاری نے پنوں کو چھوڑ کے سسی کی ٹانگ لی۔ اسے سسی پر سخت غصہ آ رہا تھا۔
دلاری کی ڈانٹ پر سسی گھبرا گئی اور بھیگی بلی بن کے بولی۔
"مجھے معاف کر دو دلاری”سسی نے بھی معذرت پیش کی۔
دلاری کو ہنسی آنے لگی۔
"چلو واپس چلیں دلاری۔ "سسی دھیمی آواز میں بولی۔
"آئیں کس لیے تھیں۔ مشک نہیں لینا ہے دلاری کی ہنسی نکل گئی۔ "اگر اجازت ہو تو یہاں سوداگر کی کچھ مزاج پرسی کروں ؟”
"انہوں نے کیا کیا ہے ؟”
سسی نے فوراً پنوں کی حمایت کی۔
"کچھ کہا ہی نہیں انہوں نے میں پوچھتی ہوں کہ تمہارا اور تمہارے باپ کا نام کس نے بتایا انہیں ؟” دلاری نے سسی سے سوال کیا۔
"میں بتاتا ہوں میں نے کہاں سنا ہے "
"دلاری پنوں کے سر ہو گئی۔
"میں بتاؤں تو برا تو نہیں مانو گی دلاری؟” پنوں نے آئندہ کے فتنے سے بچنے کے لیے پیش بندی کی کوشش کی۔
"اچھا تو تمہیں میرا نام بھی معلوم ہو گیا” دلاری آپے سے باہر ہو گئی۔ ” تم مشک بیچتے ہو کہ لڑکیوں کے نام پوچھتے پھرتے ہو؟”
"بگڑ کیوں رہی ہو دلاری؟” پنوں نے سنبھل کے کہا۔ "ابھی تم نے خود ہی بتایا ہے اپنا نام مجھے اب پوچھ رہی ہو کہاں سے معلوم ہوا؟”
سسی نے پنوں کی حمایت کی۔ "ہاں دلاری تم نے ابھی تو بتایا تھا نام۔ ”
"اچھا تو تم بھی حمایت کرنے لگیں سوداگر کی کب سے جانتی ہواسے۔ ” دلاری سسی پر پلٹ پڑی پنوں کو سسی کی طرف سے شہ ملی تو فوراً بولا:
"دیکھو دلاری تمہارا نام تو مجھے ابھی معلوم ہوا ہے یعنی تم نے خود مجھے اپنا نام بتایا ہے۔ ”
دلاری نے بات کاٹی۔
"میں پوچھتی ہوں تمہیں سسی اور اس کے باپ کا نام کہاں سے معلوم ہوا؟”
"وہی تو میں بتا رہا ہوں تمہیں "پنوں سنبھل کے بولا۔ "سسی کا نام مجھے کسی نے نہیں بتایا بلکہ یہ تو پورے سندھ میں مشہور ہے۔ محمد چودھری کو کون نہیں جانتا۔ وہ بھمبور کے سب سے بڑے مہمان نواز ہیں۔ یہاں سے گزرنے والے قافلوں کے قافلے سرداران کے مہمان ہوتے ہیں اور یہی سردار جب اپنی بستیوں میں پہنچتے ہیں تو محمد چودھری کی مہمان نوازی اور ان کی چاند جیسی بیٹی "سسی ” کی ضرور تعریف کرتے ہیں۔ سسی کی باتیں ہر جگہ ہوتی ہیں اور باتیں سننے والا سسی کو دیکھنے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔ ”
"تو کیا تم بھی سسی کا نام سن کے بے چین ہو گئے تھے ؟”دلاری نے منہ پھاڑ کے دریافت کیا۔ پنوں نے چور نظروں سے سسی کو دیکھا پھرسر جھکا کر بولا:
"سچ پوچھو دلاری بات اصل میں یہی ہے۔ میں نے جس دن سسی کے حسن کا چرچا سنا اسی دن فیصلہ کر لیا۔ کہ میں بھمبور ضرور جاؤں گا اور وہاں کے چاند کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا۔ ”
"اچھا تو یہ بات ہے "اور دلاری نے ایک قدم بڑھا کے سسی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ چل سسی چلیں۔ سوداگر مسافر ہوتے ہیں، پردیسی ہوتے ہیں اور پردیسیوں سے ملنا اپنے دل کو روگ لگانا ہے۔ ”
اور دلاری، سسی کا ہاتھ کھنچتی ہوئی واپس ہوئی۔
پنوں نے آواز لگائی۔
"پھر کس وقت آنا دلاری میں تمہارا انتظار کروں گا۔ ”
"تجھے کیا ہوا تو چپ کیوں ہو گئی؟”دلاری نے واپس ہوتے ہوئے پوچھا۔
سسی نے کوئی معقول جواب نہ دیا بس ہاں ہوں کر کے رہ گئی۔ ٹال گئی۔
دوسرے دن دلاری، سسی کے پاس گئی تو اس کا حال ہی بگڑا ہوا تھا۔ سر جھاڑ منہ پہاڑ، آنکھیں سوجی ہوئی تھیں جیسے رات بھر جاگی ہو۔
"تجھے کیا ہوا سسی؟” دلاری گھبرا گئی۔
"کچھ بھی نہیں ” سسی نے ٹالا۔ "بس یونہی سر میں درد ہو گیا تھا۔ ”
"تو چاچا کو بتایا ہوتا کوئی دوا منگائی تو نے ؟” دلاری نے محبت سے پوچھا:
"دوا کا ہے کی کوئی مرض بھی تو ہو؟”
"اری بھولی تیرا چہرہ فق ہے۔ منہ پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں اور کہتی ہے کہ کوئی مرض ہی نہیں۔ ”
سسی نے کچھ جواب نہ دیا یا پھر وہ کیا جواب دیتی۔
دلاری نے مشورہ دیا:
"تو مرض بڑھا لے گی۔ میں جا کے چاچا سے بات کرتی ہوں۔ ”
"وہ گھر نہیں ہیں دریا پر گئے ہیں "سسی نے بتایا۔
پھر سسی کی چارپائی پر دلاری بیٹھ گئی اور پیار سے بولی:
"لا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تیرا سر دبا دوں، کیا رات بھر جاگی تھی؟” اور دلاری نے اسے محبت سے اپنی طرف کھینچا۔
"ہاں نیند نہیں آئی تھی رات بھر۔ "سسی نے ٹھنڈی سانس بھری۔
"اب تو وہاں نہیں جائے گی۔ ” دلاری نے قدرے سخت مگر محبت بھرے لیجے میں کہا۔
"کہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کدھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کس کے پاس؟”
"وہاں سوداگر کے پاس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سودارگر مشک” اور پھر خود ہی شرما گئی۔
"ہوں تیرا دل پھر وہاں چلنے کو کہہ رہا ہے۔ ”
"کل کچھ خریدا ہی نہ تھا میں نے۔ ”
"تو کہے تو میں بھی ساتھ چلوں۔ ایک سے دو بھلے ہوتے ہیں دلاری کا دل بھی جانے کو کر رہا تھا”
اس طرح دونوں ہنستی بولتی اور ادھر ادھر کی باتیں کرتی "پنوں ” کے پاس پہنچ گئیں۔
پنوں برآمدے میں کھڑا تھا جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو۔
دلاری نے چھیڑا:
"دیکھ وہ تیرا انتظار کر رہا ہے۔ ”
اور سسی واقعی شرما گئی اور شرم سے دہری ہو گئی۔
اور پنوں بڑھ کے ان کے قریب پہنچ گیا۔
"ہم بن بلائے آ گئے ہیں۔ آپ کو ناگوار گزرا؟”
ایک تو مہربانی پھر معذرت، اور پنوں کا جیسے گلا خشک ہونے لگا۔
"اگر آپ یہ کہتے کہ میں آپ کا انتظار کر رہا تھا تو شاید زیادہ موزوں ہوتا۔ دلاری نے پنوں کو چھیڑا۔
پنوں کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا:
"آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ میں صبح سے انتظار کر رہا تھا۔ ”
اور پھر وہ ان دونوں کو اپنے حجرے میں لے گیا۔
"دیکھو میاں سوداگر! میں بات کھری کہتی ہوں چاہے تمہیں برا کیوں نہ لگے۔ "دلاری نے پنوں کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔
"میں برا بالکل نہیں مانوں گا۔ جو تمہارے دل میں آئے کہہ ڈالو” پنوں اس کی بات سے بے اختیار ہو گیا۔
"پہلے تم اپنے دل کی بات کہو۔ میرا مطلب ہے کہ تم کون ہو۔ کہاں سے ائے ہو، اور کیا چاہتے ہو”دلاری نے ایک ساتھ تمام سوالات کر ڈالے۔
پنوں کے جذبات امڈے آ رہے تھے۔ دلاری کی شہ ملی تو اس نے چاہا کہ دل کا حال کھول کے رکھ دے مگر ڈرا کہ کہیں مصیبت میں نہ پھنس جائے۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا جواب دے کہ بات کھل بھی جائے اور سسی کو برا بھی نہ لگے۔
پنوں کو جواب دینے میں دیر لگی تو دلاری نے بگڑ کے کہا:
"پردیسی ابھی خیر ہے۔ چپ چاپ واپس چلے جاؤ یہ بڑے جوکھوں کا کام ہے اس میں جان بھی جا سکتی ہے ”
"مجھے جان کی پروا نہیں "پنوں کے عشق نے زور مارا۔
تو پھر صاف صاف بتاؤ، یہ سوداگر کا بھیس کیوں بدلا ہے ؟” دلاری نے اسے گھیر لیا۔
پنوں نے سر جھکا کے اقبال کیا:
"سچ پوچھو تو میں نے یہ سب کچھ سسی کے لیے کیا ہے۔ اب میری جان اور عزت تمہارے ہاتھ میں ہے جو چاہے کرو۔ ”
دلاری کو پہلے ہی شبہ تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ پنوں سے بات کرنے کے بعد اس کا شبہ یقین میں بدل گیا گھر آ کر اس نے سسی سے پوچھا:
"اب بتا تو کیا کہتی ہے ؟”
سسی کے رگ و پے میں پنوں کی محبت سما گئی تھی۔ محبت تو اسے پہلے ہی دن سے ہو گئی تھی اور اب تو یہ عشق میں ڈھلتی جا رہی تھی۔ دلاری کے سوال پر سسی رونے لگی پھر بھرائی آواز میں بولی:
"پیاری سکھی! جیسے بھی ہو پنوں سے ملاپ کی کوئی صورت نکالو ورنہ میں یونہی رو رو کے جان دے دوں گی۔ ”
دلاری نے اسے تسلی دی۔ "دل کو سنبھال سسی! اگر زیادہ بے چین ہوئی تو بات کھل جائے گی اور پنوں کبھی نہ مل سکے گا۔ ”
"پھر میں کیا کروں دلاری تم ہی کچھ بتاؤ؟”
اور سسی کی رو رو کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
"اس کی صورت صرف یہی ہو سکتی ہے کہ تیرا اور پنوں کا بیاہ کر دیا جائے ” دلاری نے مشورہ دیا پنوں کیوں مانے گا۔ وہ اتنا بڑا سوداگر اور میں ایک دھوبی کی بیٹی۔ نہ معلوم پنوں کی کیا ذات برادری ہے ؟”
"یہ تو مجھ پر چھوڑ دے سسی” دلاری نے تسلی دی۔ میں نے پنوں کی آنکھوں میں محبت دوڑتی دیکھی ہے وہ انکار نہیں کرے گا۔ اب مسئلہ تو تیرے گھر والوں کا ہے پتہ نہیں تیرے باپ ماں اس رشتہ کو پسند بھی کریں گے کہ نہیں ؟”
"ماں کو تو میں راضی کر لوں گی: سسی نے بڑے اعتماد سے کہا:”رہا بابا کا معاملہ تو ان سے بات کرنا پنوں میں کونسا عیب ہے۔ بابا کیوں انکار کریں گے ؟
"ایک بات یاد رکھ سسی”دلاری نے اسے سمجھایا۔ "ہماری ذات دھوبیوں کی ہے اور ہمارے یہاں لڑکیاں اپنی برادری میں بیاہی جاتی ہیں۔ پتہ نہیں پنوں کس ذات کا ہے ؟”
"پھر کیا ہو گا دلاری؟” سسی کا دل ڈولنے لگا۔ "میں پنوں کے بنا مر جاؤں گی دلاری۔ ”
"اپنے آپ کو سنبھال کے رکھ سسی ورنہ بنا بنایا کام بگڑ جائے گا۔ تو ماں کو راضی کر میں بابا کے لیے کوئی ترکیب سوچتی ہوں۔ ”
دلاری، سسی کو تسلی دے کر پنوں کے پاس گئی اور اس سے تفصیلی گفتگو کی۔
دلاری نے اس سے پوچھا:
"اب بتاؤ میاں سوداگر تم کس کے بیٹے ہو اور تمہاری ذات برادری کیا ہے ؟”
"دیکھو دلاری! میں ذات برادری کے معاملے میں بہت آزاد خیال ہوں پھر محبت اور عشق میں ذات برادری نہیں پوچھی جاتی۔ ”
"یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو” دلاری نے کہا۔ "لیکن سسی کے معاملے میں ذات برادری کا سوال ضرور اٹھے گا۔ میں نے تم دونوں کے ملاپ کی صورت یہ سوچی ہے کہ تمہارا اور سسی کا بیاہ کر دیا جائے۔ ”
"میں بالکل تیار ہوں دلاری آج ہی بیاہ کر دو” پنوں خوش ہو گیا۔
"شادی بیاہ کی بات تو بعد میں چلے گی۔ پہلے تم اپنی ذات برادری تو بتاؤ؟” دلاری نے زور دے کر کہا: تم جانتے ہو کہ ہم لوگ دھوبی ہیں اور ہماری لڑکیاں اپنی ہی برادری میں بیاہی جاتی ہیں۔ ”
اب پنوں مشکل میں پھنس گیا۔ دلاری نے صاف کہہ دیا تھا کہ دھوبیوں کی لڑکیاں اپنی ہی برادری میں بیاہی جاتی ہیں۔ وہ خاموش بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ دلاری اس معاملہ میں بڑے خلوص سے حصہ لے رہی تھی۔ پنوں اس سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔
آخر پنوں کو صاف الفاظ میں کہا:
"دلاری میں تمہیں دھوکہ نہیں دے سکتا۔ دراصل میں شاہ کچ مکران کا شہزادہ پنوں ہوں۔ ایک محفل میں سسی کے حسن کی تعریف سن کر اس پر عاشق ہو گیا اور جب دل کی بیکلی بہت بڑھی تو میں نے مشک وغیرہ کا سوداگر کا روپ دھارا اور سسی سے ملنے نکل کھڑا ہوا۔ ”
تو تم شہزادے ہو کچ مکران کے ؟” دلاری نے اسے حیران نظروں سے دیکھا۔ "مگر یہ تو بڑی مشکل ہو گئی۔ سسی کے بابا محمد چودھری کسی دوسری ذات والے کو بیٹی دینے سے صاف انکار کر دیں گے۔ ”
یہ سن کے شہزادہ پریشان ہو گیا۔
"اب کیا ہو گا دلاری؟ میری زندگی سسی کے بغیر ادھوری ہے۔ میں بھمبورسے واپس نہیں جاؤں گا۔ ”
دلاری بہت ذہین اور سمجھدار تھی۔ وہ ایک دم چونک کے بولی:
"ایک ترکیب ہو سکتی ہے۔ ”
"کیا ترکیب؟” شہزادہ بے چین ہو گیا۔
"چودھری بابا سے کہہ دینا کہ تمہاری ذات دھوبی ہے ” دلاری نے فیصلہ کن انداز میں کہا:
"میں تیار ہوں مگر کیا چودھری بابا یقین کر لیں گے ” پنوں نے کہا۔
"یہ اس وقت دیکھا جائے گا جب وہ یقین نہ کریں گے۔ ” اور دلاری پنوں سے یہ قول لے کر چلی گئی۔ ادھر سسی نے ماں کو پنوں سے شادی کے لیے آمادہ کر لیا۔ اس نے ماں سے پنوں کی اس قدر تعریفیں کیں کہ وہ سسی کی بات مان گئی۔
سسی گھر میں خوش خوش بیٹھی تھی کہ دلاری آ گئی۔
"میں نے ماں کو راضی کر لیا ہے دلاری۔ "سسی نے دلاری کو خوش خبری سنائی۔
"چلو یہ تو ہو گیا مگر پنوں کا معاملہ الجھتا معلوم ہو رہا ہے۔ ”
سسی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
"کیا پنوں نے انکار کر دیا۔ ” سسی نے گھبرا کے پوچھا۔
"یہ بات نہیں ہے سسی۔ وہ تو تیرے لیے سب کچھ کرنے کو آمادہ ہے "دلاری نے بتایا۔ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ پنوں کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ کچ مکران کا شہزادہ ہے۔ اس نے سوداگر کا روپ تجھ تک پہنچنے کے لیے دھارا ہے۔ ”
سسی کا منہ حیرت سے کھل گیا”میرا پنوں شہزادہ ہے۔ ”
"اس میں تعجب کی کیا بات ہے "دلاری لہک کے بولی۔ تو بھی تو کسی شہزادی سے کم نہیں ہے سسی”سسی شرما گئی۔
دلاری نے بتایا:
"میں نے پنوں کو سمجھا دیا ہے کہ اگر چاچا محمد چودھری اس سے ذات پوچھیں تو بے دھڑک کہہ دے کہ وہ ذات کا دھوبی ہے کپڑے دھوتا اور رنگتا ہے۔ ”
"پھر پنوں نے کیا کہا؟” سسی نے گھبرا کے پوچھا ۔
*الماس ایم اے*
قسط نمبر :- 3
اری میں نے سنا ہے کہ مشک کا سوداگر ایسا خوبصورت ہے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔
"مجھے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں مشک ضرور دیکھنا چاہتی ہوں۔ ” سسی نے پوری دلچسپی سے کہا۔
"اس میں مشکل ہی کیا ہے۔ سہیلی چھیڑ خانی کے انداز میں بولی۔ توبی۔ تم میرے ساتھ چلو مشک بھی دیکھ لینا اور مشک والے پنوں کو بھی۔ ”
"چل ٹھیک ہے میں چلوں گی تیرے ساتھ۔ "سسی رضامند ہو گئی۔ "مگر یہ سن لے کہ میں مشک دیکھنے نہییں بلکہ خریدنے جاؤں گی۔ ”
"ہاں بھئی تم مشک خرید سکتی ہو تمہیں اللہ نے پیسہ دیا ہے۔ سہیلی نے افسردگی سے کہا:
سنا ہے کہ مشک بہت قیمتی ہوتی ہے۔ اللہ مجھے پیسہ دے تو میں بھی تھوڑی سی خرید لوں۔ ”
"دل نہ چھوٹا کر دلاری۔ سسی نے اسے تسلی دی۔ میں جتنی مشک خریدوں گی اس میں آدھی مشک تم لے لینا۔ اب تو خوش ہو جاؤ۔ ”
دلاری صرف خوش ہی نہیں بلکہ اس سے سسی کو بڑی محبت سے گلے لگا لیا۔
سسی کو واقعی روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ محمد چودھری جو کچھ کماتا تھا اس میں سے کچھ مہمان نوازی پر خرچ کرتا باقی سسی کے حوالے کر دیتا۔ اسے سے سسی کا ہاتھ خوب کھلا ہوا تھا، وہ خوب اللے تللے کرتے تھی، محمد چودھری اس کا ہاتھ کبھی نہ روکتا بلکہ حوصلہ افزائی کرتا تھا اس کے آگے پیچھے اور تھا ہی کون، ایک بوڑھی عورت تھی جس نے اپنا خون دے کر ننھی سی جان کو جوانی تک پالا تھا۔
دلاری دوسرے ہی دن مشک وغیرہ کے مسافر کا پتہ ٹھکانہ معلوم کر کے آ گئی۔
"چل سسی میں سب کچھ معلوم کر آئی ہوں۔ ” دلاری نے آتے ہی کہا۔
سسی نے اسے حیران نظروں سے دیکھا۔ "کہاں چلوں کیا معلوم کر کے آئی ہے تو؟”
"اری کل بات نہیں ہوئی تھی”دلاری بے تکلفی سے بولی۔ وہ سوداگر سرائے میں ٹھہرا ہوا ہے پوری سرائے میں خوشبو کے جھونکے چل رہے ہیں۔
اچھا وہ مشک و منبر کا سوداگر پنوں۔ سسی نے دلچسپی ظاہر کی۔ "کیسا ہے وہ؟ دلاری تنک کر بولی
کان کھول کے سن لے سسی۔ میری شادی ہونے والی ہے میرا مرد لاکھوں میں ایک ہے میں کیوں دیکھوں کون کیسا ہے ؟
پھر ذرا رک کے بولی:
"اگر تجھے پسند آ جائے تو کچھ بات چلاؤں ”
"خدا غارت کرے تجھے کیوں مجھے بدنام کر دے گی۔ ” سسی بگڑ گئی۔ "کسی نے سن لیا تو آفت آ جائے گی۔ ”
ہوں آفت آ جائے گی تجھے شادی نہیں کرنا ہے کیا؟” دلاری نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔
دلاری نے کوئی جواب نہ دیا۔
"چپ کیوں ہے جواب کیوں نہیں دیتی؟”
"کا ہے کا جواب دوں، کیا جواب دوں ؟”
"یہی کہ کیا تجھے شادی نہیں کرنی ہے۔ ”
"کرنی ہے مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟”
"اگر شادی کرنی ہے تو پھر اگر مگر۔ پنوں اچھا جوان ہے اگر تجھے پسند ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟”
پھر دلاری نے خود ہی تعارف کرایا
"میرا نام دلاری ہے "دلاری نے بے تکلف بتایا۔
پنوں نے چونک کے نظریں اوپر اٹھائیں۔
دلاری نے پھر بولنا شروع کیا:
"میرا نام دلاری ہے اور یہ میری سہیلی، اس کا نام سسی ہے۔ ”
سسی کے نام پر پنوں اپنی جگہ اٹھ کے کھڑا ہو گیا۔
"یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سسی ہیں۔ محمد چودھری کی بیٹی؟” پنوں نے ہکلاتے ہوئے کہا اور اس کی نظریں سسی کے سراپا پر اٹک کے رہ گئیں۔ ” یہ شاید محمد چودھری کی بیٹی ہیں ؟”
دوسری طرف دلاری اور سسی کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ دلاری نے قدرے سخت لہجے میں کہ:
"ہم جانتے ہیں کہ تم پنوں ہو۔ مشک بیچنے والے مگر تم مشک بیچتے ہو کہ دوسرں کے باپ دادا کا نام پوچھنے والے ہو؟”
پنوں نے لاپروائی سے دلاری کو دیکھا پھر اس کی نظریں سسی پر اٹک کے رہ گئیں۔ دلاری کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس نے گھور کے "سسی” کو دیکھا مگر وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئیں کیونکہ سسی کی نظریں اک دم پنوں کے چہرے پر اٹک کے رہ گئیں تھیں۔
دلاری نے سسی کو تو اس کے حال پر چھوڑا اور پنوں پر برس پڑی:
"او سوداگر زادے تم مشک بیچتے ہو کہ کنواری لڑکیوں کو تاکتے پھرتے ہو؟”
دلاری کا لہجہ اس قدر کرخت تھا کہ "پنوں "سہم گیا۔ اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر اس نے دیکھا کہ خود سسی کی نظریں "پنوں ” کے سراپا کا جائزہ لے رہی ہیں۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بہانہ کرے۔ آخر اسے کہنا ہی پڑا:
"سسی ہوش میں آؤ کہاں کھو گئی ہو؟”
دلاری نے پنوں کو چھوڑ کے سسی کی ٹانگ لی۔ اسے سسی پر سخت غصہ آ رہا تھا۔
دلاری کی ڈانٹ پر سسی گھبرا گئی اور بھیگی بلی بن کے بولی۔
"مجھے معاف کر دو دلاری”سسی نے بھی معذرت پیش کی۔
دلاری کو ہنسی آنے لگی۔
"چلو واپس چلیں دلاری۔ "سسی دھیمی آواز میں بولی۔
"آئیں کس لیے تھیں۔ مشک نہیں لینا ہے دلاری کی ہنسی نکل گئی۔ "اگر اجازت ہو تو یہاں سوداگر کی کچھ مزاج پرسی کروں ؟”
"انہوں نے کیا کیا ہے ؟”
سسی نے فوراً پنوں کی حمایت کی۔
"کچھ کہا ہی نہیں انہوں نے میں پوچھتی ہوں کہ تمہارا اور تمہارے باپ کا نام کس نے بتایا انہیں ؟” دلاری نے سسی سے سوال کیا۔
"میں بتاتا ہوں میں نے کہاں سنا ہے "
"دلاری پنوں کے سر ہو گئی۔
"میں بتاؤں تو برا تو نہیں مانو گی دلاری؟” پنوں نے آئندہ کے فتنے سے بچنے کے لیے پیش بندی کی کوشش کی۔
"اچھا تو تمہیں میرا نام بھی معلوم ہو گیا” دلاری آپے سے باہر ہو گئی۔ ” تم مشک بیچتے ہو کہ لڑکیوں کے نام پوچھتے پھرتے ہو؟”
"بگڑ کیوں رہی ہو دلاری؟” پنوں نے سنبھل کے کہا۔ "ابھی تم نے خود ہی بتایا ہے اپنا نام مجھے اب پوچھ رہی ہو کہاں سے معلوم ہوا؟”
سسی نے پنوں کی حمایت کی۔ "ہاں دلاری تم نے ابھی تو بتایا تھا نام۔ ”
"اچھا تو تم بھی حمایت کرنے لگیں سوداگر کی کب سے جانتی ہواسے۔ ” دلاری سسی پر پلٹ پڑی پنوں کو سسی کی طرف سے شہ ملی تو فوراً بولا:
"دیکھو دلاری تمہارا نام تو مجھے ابھی معلوم ہوا ہے یعنی تم نے خود مجھے اپنا نام بتایا ہے۔ ”
دلاری نے بات کاٹی۔
"میں پوچھتی ہوں تمہیں سسی اور اس کے باپ کا نام کہاں سے معلوم ہوا؟”
"وہی تو میں بتا رہا ہوں تمہیں "پنوں سنبھل کے بولا۔ "سسی کا نام مجھے کسی نے نہیں بتایا بلکہ یہ تو پورے سندھ میں مشہور ہے۔ محمد چودھری کو کون نہیں جانتا۔ وہ بھمبور کے سب سے بڑے مہمان نواز ہیں۔ یہاں سے گزرنے والے قافلوں کے قافلے سرداران کے مہمان ہوتے ہیں اور یہی سردار جب اپنی بستیوں میں پہنچتے ہیں تو محمد چودھری کی مہمان نوازی اور ان کی چاند جیسی بیٹی "سسی ” کی ضرور تعریف کرتے ہیں۔ سسی کی باتیں ہر جگہ ہوتی ہیں اور باتیں سننے والا سسی کو دیکھنے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔ ”
"تو کیا تم بھی سسی کا نام سن کے بے چین ہو گئے تھے ؟”دلاری نے منہ پھاڑ کے دریافت کیا۔ پنوں نے چور نظروں سے سسی کو دیکھا پھرسر جھکا کر بولا:
"سچ پوچھو دلاری بات اصل میں یہی ہے۔ میں نے جس دن سسی کے حسن کا چرچا سنا اسی دن فیصلہ کر لیا۔ کہ میں بھمبور ضرور جاؤں گا اور وہاں کے چاند کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا۔ ”
"اچھا تو یہ بات ہے "اور دلاری نے ایک قدم بڑھا کے سسی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ چل سسی چلیں۔ سوداگر مسافر ہوتے ہیں، پردیسی ہوتے ہیں اور پردیسیوں سے ملنا اپنے دل کو روگ لگانا ہے۔ ”
اور دلاری، سسی کا ہاتھ کھنچتی ہوئی واپس ہوئی۔
پنوں نے آواز لگائی۔
"پھر کس وقت آنا دلاری میں تمہارا انتظار کروں گا۔ ”
"تجھے کیا ہوا تو چپ کیوں ہو گئی؟”دلاری نے واپس ہوتے ہوئے پوچھا۔
سسی نے کوئی معقول جواب نہ دیا بس ہاں ہوں کر کے رہ گئی۔ ٹال گئی۔
دوسرے دن دلاری، سسی کے پاس گئی تو اس کا حال ہی بگڑا ہوا تھا۔ سر جھاڑ منہ پہاڑ، آنکھیں سوجی ہوئی تھیں جیسے رات بھر جاگی ہو۔
"تجھے کیا ہوا سسی؟” دلاری گھبرا گئی۔
"کچھ بھی نہیں ” سسی نے ٹالا۔ "بس یونہی سر میں درد ہو گیا تھا۔ ”
"تو چاچا کو بتایا ہوتا کوئی دوا منگائی تو نے ؟” دلاری نے محبت سے پوچھا:
"دوا کا ہے کی کوئی مرض بھی تو ہو؟”
"اری بھولی تیرا چہرہ فق ہے۔ منہ پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں اور کہتی ہے کہ کوئی مرض ہی نہیں۔ ”
سسی نے کچھ جواب نہ دیا یا پھر وہ کیا جواب دیتی۔
دلاری نے مشورہ دیا:
"تو مرض بڑھا لے گی۔ میں جا کے چاچا سے بات کرتی ہوں۔ ”
"وہ گھر نہیں ہیں دریا پر گئے ہیں "سسی نے بتایا۔
پھر سسی کی چارپائی پر دلاری بیٹھ گئی اور پیار سے بولی:
"لا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تیرا سر دبا دوں، کیا رات بھر جاگی تھی؟” اور دلاری نے اسے محبت سے اپنی طرف کھینچا۔
"ہاں نیند نہیں آئی تھی رات بھر۔ "سسی نے ٹھنڈی سانس بھری۔
"اب تو وہاں نہیں جائے گی۔ ” دلاری نے قدرے سخت مگر محبت بھرے لیجے میں کہا۔
"کہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کدھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کس کے پاس؟”
"وہاں سوداگر کے پاس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سودارگر مشک” اور پھر خود ہی شرما گئی۔
"ہوں تیرا دل پھر وہاں چلنے کو کہہ رہا ہے۔ ”
"کل کچھ خریدا ہی نہ تھا میں نے۔ ”
"تو کہے تو میں بھی ساتھ چلوں۔ ایک سے دو بھلے ہوتے ہیں دلاری کا دل بھی جانے کو کر رہا تھا”
اس طرح دونوں ہنستی بولتی اور ادھر ادھر کی باتیں کرتی "پنوں ” کے پاس پہنچ گئیں۔
پنوں برآمدے میں کھڑا تھا جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو۔
دلاری نے چھیڑا:
"دیکھ وہ تیرا انتظار کر رہا ہے۔ ”
اور سسی واقعی شرما گئی اور شرم سے دہری ہو گئی۔
اور پنوں بڑھ کے ان کے قریب پہنچ گیا۔
"ہم بن بلائے آ گئے ہیں۔ آپ کو ناگوار گزرا؟”
ایک تو مہربانی پھر معذرت، اور پنوں کا جیسے گلا خشک ہونے لگا۔
"اگر آپ یہ کہتے کہ میں آپ کا انتظار کر رہا تھا تو شاید زیادہ موزوں ہوتا۔ دلاری نے پنوں کو چھیڑا۔
پنوں کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا:
"آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ میں صبح سے انتظار کر رہا تھا۔ ”
اور پھر وہ ان دونوں کو اپنے حجرے میں لے گیا۔
"دیکھو میاں سوداگر! میں بات کھری کہتی ہوں چاہے تمہیں برا کیوں نہ لگے۔ "دلاری نے پنوں کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔
"میں برا بالکل نہیں مانوں گا۔ جو تمہارے دل میں آئے کہہ ڈالو” پنوں اس کی بات سے بے اختیار ہو گیا۔
"پہلے تم اپنے دل کی بات کہو۔ میرا مطلب ہے کہ تم کون ہو۔ کہاں سے ائے ہو، اور کیا چاہتے ہو”دلاری نے ایک ساتھ تمام سوالات کر ڈالے۔
پنوں کے جذبات امڈے آ رہے تھے۔ دلاری کی شہ ملی تو اس نے چاہا کہ دل کا حال کھول کے رکھ دے مگر ڈرا کہ کہیں مصیبت میں نہ پھنس جائے۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا جواب دے کہ بات کھل بھی جائے اور سسی کو برا بھی نہ لگے۔
پنوں کو جواب دینے میں دیر لگی تو دلاری نے بگڑ کے کہا:
"پردیسی ابھی خیر ہے۔ چپ چاپ واپس چلے جاؤ یہ بڑے جوکھوں کا کام ہے اس میں جان بھی جا سکتی ہے ”
"مجھے جان کی پروا نہیں "پنوں کے عشق نے زور مارا۔
تو پھر صاف صاف بتاؤ، یہ سوداگر کا بھیس کیوں بدلا ہے ؟” دلاری نے اسے گھیر لیا۔
پنوں نے سر جھکا کے اقبال کیا:
"سچ پوچھو تو میں نے یہ سب کچھ سسی کے لیے کیا ہے۔ اب میری جان اور عزت تمہارے ہاتھ میں ہے جو چاہے کرو۔ ”
دلاری کو پہلے ہی شبہ تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ پنوں سے بات کرنے کے بعد اس کا شبہ یقین میں بدل گیا گھر آ کر اس نے سسی سے پوچھا:
"اب بتا تو کیا کہتی ہے ؟”
سسی کے رگ و پے میں پنوں کی محبت سما گئی تھی۔ محبت تو اسے پہلے ہی دن سے ہو گئی تھی اور اب تو یہ عشق میں ڈھلتی جا رہی تھی۔ دلاری کے سوال پر سسی رونے لگی پھر بھرائی آواز میں بولی:
"پیاری سکھی! جیسے بھی ہو پنوں سے ملاپ کی کوئی صورت نکالو ورنہ میں یونہی رو رو کے جان دے دوں گی۔ ”
دلاری نے اسے تسلی دی۔ "دل کو سنبھال سسی! اگر زیادہ بے چین ہوئی تو بات کھل جائے گی اور پنوں کبھی نہ مل سکے گا۔ ”
"پھر میں کیا کروں دلاری تم ہی کچھ بتاؤ؟”
اور سسی کی رو رو کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
"اس کی صورت صرف یہی ہو سکتی ہے کہ تیرا اور پنوں کا بیاہ کر دیا جائے ” دلاری نے مشورہ دیا پنوں کیوں مانے گا۔ وہ اتنا بڑا سوداگر اور میں ایک دھوبی کی بیٹی۔ نہ معلوم پنوں کی کیا ذات برادری ہے ؟”
"یہ تو مجھ پر چھوڑ دے سسی” دلاری نے تسلی دی۔ میں نے پنوں کی آنکھوں میں محبت دوڑتی دیکھی ہے وہ انکار نہیں کرے گا۔ اب مسئلہ تو تیرے گھر والوں کا ہے پتہ نہیں تیرے باپ ماں اس رشتہ کو پسند بھی کریں گے کہ نہیں ؟”
"ماں کو تو میں راضی کر لوں گی: سسی نے بڑے اعتماد سے کہا:”رہا بابا کا معاملہ تو ان سے بات کرنا پنوں میں کونسا عیب ہے۔ بابا کیوں انکار کریں گے ؟
"ایک بات یاد رکھ سسی”دلاری نے اسے سمجھایا۔ "ہماری ذات دھوبیوں کی ہے اور ہمارے یہاں لڑکیاں اپنی برادری میں بیاہی جاتی ہیں۔ پتہ نہیں پنوں کس ذات کا ہے ؟”
"پھر کیا ہو گا دلاری؟” سسی کا دل ڈولنے لگا۔ "میں پنوں کے بنا مر جاؤں گی دلاری۔ ”
"اپنے آپ کو سنبھال کے رکھ سسی ورنہ بنا بنایا کام بگڑ جائے گا۔ تو ماں کو راضی کر میں بابا کے لیے کوئی ترکیب سوچتی ہوں۔ ”
دلاری، سسی کو تسلی دے کر پنوں کے پاس گئی اور اس سے تفصیلی گفتگو کی۔
دلاری نے اس سے پوچھا:
"اب بتاؤ میاں سوداگر تم کس کے بیٹے ہو اور تمہاری ذات برادری کیا ہے ؟”
"دیکھو دلاری! میں ذات برادری کے معاملے میں بہت آزاد خیال ہوں پھر محبت اور عشق میں ذات برادری نہیں پوچھی جاتی۔ ”
"یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو” دلاری نے کہا۔ "لیکن سسی کے معاملے میں ذات برادری کا سوال ضرور اٹھے گا۔ میں نے تم دونوں کے ملاپ کی صورت یہ سوچی ہے کہ تمہارا اور سسی کا بیاہ کر دیا جائے۔ ”
"میں بالکل تیار ہوں دلاری آج ہی بیاہ کر دو” پنوں خوش ہو گیا۔
"شادی بیاہ کی بات تو بعد میں چلے گی۔ پہلے تم اپنی ذات برادری تو بتاؤ؟” دلاری نے زور دے کر کہا: تم جانتے ہو کہ ہم لوگ دھوبی ہیں اور ہماری لڑکیاں اپنی ہی برادری میں بیاہی جاتی ہیں۔ ”
اب پنوں مشکل میں پھنس گیا۔ دلاری نے صاف کہہ دیا تھا کہ دھوبیوں کی لڑکیاں اپنی ہی برادری میں بیاہی جاتی ہیں۔ وہ خاموش بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ دلاری اس معاملہ میں بڑے خلوص سے حصہ لے رہی تھی۔ پنوں اس سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔
آخر پنوں کو صاف الفاظ میں کہا:
"دلاری میں تمہیں دھوکہ نہیں دے سکتا۔ دراصل میں شاہ کچ مکران کا شہزادہ پنوں ہوں۔ ایک محفل میں سسی کے حسن کی تعریف سن کر اس پر عاشق ہو گیا اور جب دل کی بیکلی بہت بڑھی تو میں نے مشک وغیرہ کا سوداگر کا روپ دھارا اور سسی سے ملنے نکل کھڑا ہوا۔ ”
تو تم شہزادے ہو کچ مکران کے ؟” دلاری نے اسے حیران نظروں سے دیکھا۔ "مگر یہ تو بڑی مشکل ہو گئی۔ سسی کے بابا محمد چودھری کسی دوسری ذات والے کو بیٹی دینے سے صاف انکار کر دیں گے۔ ”
یہ سن کے شہزادہ پریشان ہو گیا۔
"اب کیا ہو گا دلاری؟ میری زندگی سسی کے بغیر ادھوری ہے۔ میں بھمبورسے واپس نہیں جاؤں گا۔ ”
دلاری بہت ذہین اور سمجھدار تھی۔ وہ ایک دم چونک کے بولی:
"ایک ترکیب ہو سکتی ہے۔ ”
"کیا ترکیب؟” شہزادہ بے چین ہو گیا۔
"چودھری بابا سے کہہ دینا کہ تمہاری ذات دھوبی ہے ” دلاری نے فیصلہ کن انداز میں کہا:
"میں تیار ہوں مگر کیا چودھری بابا یقین کر لیں گے ” پنوں نے کہا۔
"یہ اس وقت دیکھا جائے گا جب وہ یقین نہ کریں گے۔ ” اور دلاری پنوں سے یہ قول لے کر چلی گئی۔ ادھر سسی نے ماں کو پنوں سے شادی کے لیے آمادہ کر لیا۔ اس نے ماں سے پنوں کی اس قدر تعریفیں کیں کہ وہ سسی کی بات مان گئی۔
سسی گھر میں خوش خوش بیٹھی تھی کہ دلاری آ گئی۔
"میں نے ماں کو راضی کر لیا ہے دلاری۔ "سسی نے دلاری کو خوش خبری سنائی۔
"چلو یہ تو ہو گیا مگر پنوں کا معاملہ الجھتا معلوم ہو رہا ہے۔ ”
سسی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
"کیا پنوں نے انکار کر دیا۔ ” سسی نے گھبرا کے پوچھا۔
"یہ بات نہیں ہے سسی۔ وہ تو تیرے لیے سب کچھ کرنے کو آمادہ ہے "دلاری نے بتایا۔ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ پنوں کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ کچ مکران کا شہزادہ ہے۔ اس نے سوداگر کا روپ تجھ تک پہنچنے کے لیے دھارا ہے۔ ”
سسی کا منہ حیرت سے کھل گیا”میرا پنوں شہزادہ ہے۔ ”
"اس میں تعجب کی کیا بات ہے "دلاری لہک کے بولی۔ تو بھی تو کسی شہزادی سے کم نہیں ہے سسی”سسی شرما گئی۔
دلاری نے بتایا:
"میں نے پنوں کو سمجھا دیا ہے کہ اگر چاچا محمد چودھری اس سے ذات پوچھیں تو بے دھڑک کہہ دے کہ وہ ذات کا دھوبی ہے کپڑے دھوتا اور رنگتا ہے۔ ”
"پھر پنوں نے کیا کہا؟” سسی نے گھبرا کے پوچھا ۔
(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment